تیمرگرہ جیل کا پانچ روپے فی منٹ والا ’پی سی او‘

جیل کے ایک کمرے میں چار پانچ ٹیلی فون سیٹ پڑے تھے جو پرانی طرز کے پی سی او  بوتھ کا منظر پیش کر رہے تھے۔

تین ماہ ہو گئے ہیں نظام الدین نے گھر والوں میں سے کسی کے ساتھ بھی ملاقات نہیں کی اور اس کی وجہ جیل میں کرونا وبا کے پھیلاؤ کے خطرے کے پیش نظر ملاقاتوں پر پابندی ہے۔

جیل کے ایک کمرے میں چار پانچ ٹیلی فون سیٹ پڑے تھے جو پرانی طرز کے پی سی او  بوتھ کا منظر پیش کر رہے تھے۔

نظام الدین گذشتہ ساڑھے تین سال سے خیبر پختونخوا کے ضلع دیر پائین میں واقع تیمرگرہ کی ڈسٹرکٹ جیل میں قید کاٹ کر رہے ہیں۔

جیل میں ملاقاتوں پر پابندی کے بعد ان کا اپنے گھر والوں سے رابطے کا ایک ہی سہارا ہے اور وہ جیل کے اندر پی سی او کی سہولت ہے جو جیل انتظامیہ کی طرف سے فراہم کی گئی ہے۔

نظام الدین اپنے گھر والوں کا حال پوچھنے کے لیے  ٹیلی فون پر بات کر رہے ہیں اور کال بند کرنے کے بعد پرانی طرز کے ٹیلی فون سیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’کرونا میں رابطے کا ایک ہی سہارا یہ ٹیلی فون سیٹ ہے۔‘

ان کی طرح تیمرگرہ جیل میں تین سو سے زائد قیدیوں کا  گھر والوں اور رشتہ داروں کے ساتھ رابطے کا ایک ہی ذریعہ جیل کی یہی ٹیلی فون ہے جس کے فی منٹ چارجز پانچ روپے ہیں۔

نظام الدین نے انڈپینڈنٹ اردو کو تبایا کہ جیل انتظامیہ کی طرف سے صبح چھ بجے سے شام پانچ بجے تک ہفتے کے تمام دن کوئی بھی قیدی ٹیلی فون سے اپنے گھر والوں کے ساتھ رابطہ کرنے کی اجازت ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ ’قیدی جتنا چاہے بات کر سکتا ہے اور اس پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ فی منٹ چارجز پانچ روپے ہیں تاہم اگر جیل میں کوئی غریب قیدی ہو تو پانچ دس منٹ وہ مفت بھی کال کر سکتا ہے اور ان سے پیسے نہیں لیے جاتے۔‘

تیمر گرہ ڈسٹرکٹ جیل کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ بختور خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تین مہینے سے زائد ہو گئے ہیں ہم نے قیدیوں کے ساتھ ملاقاتوں پر پابندی لگا رکھی ہے تاکہ کرونا پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔

’اللہ کا شکر ہے ابھی تک جیل میں کوئی کرونا سے متاثر نہیں ہوا لیکن ہم اپنی طرف سے کوشش کرتے ہیں کہ ملاقاتوں پر پابندی برقرار رہے تاکہ کوئی باہر سے آکر کسی قیدی کو کرونا وائرس منتقل نہ کریں۔‘

تیمرگرہ ڈسٹرکٹ جیل 1990 میں قائم ہوئی جس میں تقریباً 350 قیدیوں کی گنجائش ہے اور ابھی 300 سے زائد قیدی اسی جیل میں موجود ہیں۔

ان قیدیوں میں مرد، خواتین اور 18 سال سے کم عمر کے بچے بھی شامل ہیں جو مختلف جرائم میں عدالتوں سے سزا یافتہ ہیں۔

اس جیل میں ضلع دیر پائین، ضلع دیر بالا سمیت سوات سے تعلق رکھنے والے قیدی بھی موجود ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا