طورخم :کھوجی کتے کرونا کے مریض کو کیسے ڈھونڈ نکالتے ہیں؟ 

پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ترجمان سعد بن اویس نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اسلام آباد ائیر پورٹ پر 12 مئی سے دو کتے اسی مقصد کے لیے تعینات کیے گئے ہیں کہ کرونا کے مریضوں کی ڈیٹیکشن میں مدد دے سکیں۔

سائنسدانوں کا خیال ہے کہ کوئی بھی شخص بیماری کے بعد ایک مخصوص قسم کی بو جسم سے نکالتا ہے جس کو کتے سونگھنے کی صلاحیت رکھتے (تصاویر: انڈپینڈنٹ اردو/ فائل)

وفاقی حکومت کے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر (این سی او سی)نے مئی کے اوائل میں ایک میٹنگ کے دوران اسلام آباد انٹرنیشنل ائیر پورٹ اور پاکستان افغان بارڈر طورخم پر کھوجی کتوں کو کرونا کے مریضوں کی نشاندہی کے لیے تعینات کرنے کا فیصلہ کیا تھا او ر اس مقصد کے لیے پاکستان آرمی کے تربیت یافتہ سراغ  رساں کتوں کی خدمات لی گئیں ہیں۔

قبائلی ضلع خیبر کے ڈپٹی کمشنر ارشد منصور نے تصدیق کر تے ہوئے بتایا کہ این سی او سی کے فیصلے کے بعد آج( بدھ) سے ان کتوں کو طورخم بارڈر پر آنے اور جانے والے مسافروں میں کرونا وائرس کی نشاندہی کے لیے استعمال کرنا شروع  کر دیا جائے گا جبکہ اسلام آباد ایئر پورٹ میں 12 مئی سے دو کتوں نے پہلے سے ہی کام کرنا شروع کردیا ہے۔

پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ترجمان سعد بن اویس نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اسلام آباد ائیر پورٹ پر 12 مئی سے دو کتے اسی مقصد کے لیے تعینات کیے گئے ہیں کہ کرونا کے مریضوں کی ڈیٹیکشن میں مدد دے سکیں تاہم ایئر پورٹ پر کرونا کے لیے ریپیڈ اینٹی جن ٹیسٹ معمول کے مطابق ہو رہا ہے۔

سعد سے جب پوچھا گیا کہ کتے مثبت کیسز میں کس حد تک موثر ہیں تو اس سوال کے جواب میں ان کا کا کہنا تھا کہ موثر ہیں تب ہی ان کو تعینات کیا گیا ہے کیونکہ ان چند دنوں میں وہ مثبت کیسز کو ڈیٹکٹ کرنے میں مددگار ثابت ہوئے ہیں۔ سعد نے بتایا ،' ان کتوں کے یونٹ کے ساتھ وفاقی محکمہ ہیلتھ کے اہلکار موجود ہیں جو کرونا ڈیٹیکشن میں طبی سپورٹ دے رہے ہیں۔ تاحال دو کتے اس مقصد کے لیے تعینات کیے گئے ہیں۔'

یہ کتے کرونا مریضوں کی نشاندہی کیسے کرتے ہیں؟

کتوں کو نشہ آور اشیا سمیت بارودی مواد کی نشاندہی کے لیے پوری دنیا میں استعمال کیا جاتا ہے اور یہ کتے سونگھنے کی صلاحیت کے ذریعے ان اشیا کو ڈیٹیکٹ کرتے ہیں تاہم کرونا وائرس اور کرونا کے مثبت مریض کی پہنچان کے لیے ابھی دنیا کے مختلف ممالک میں تجرباتی کام ہو رہا ہے۔ یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز لاہور کے زیر اہتمام چلنے والا پٹ بریڈنگ، ٹریننگ اینڈ رسرچ سینٹر کتوں پر مختلف تحقیقی کام کرتا ہے۔

اسی سینٹر کے سربراہ ڈاکٹر عمران لغاری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اعلٰی نسل کے سراغ  رساں کتے جن کو 'سنفنگ ڈاگز' کہا جاتا ہے ، پوری دنیا میں کامیابی کے ساتھ نشہ آور اشیا اور بارودی مواد کی نشاندہی کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں تاہم کرونا کی ڈیٹیکشن میں کتوں کا استعمال ابھی تجرباتی مراحل سے گزر رہا ہے۔

عمران نے بتایا کہ دنیا میں تجربے ہو رہے ہیں اور مختلف ممالک نے تجربات سے ثابت کیا ہے کہ کتے کرونا وائرس کی ڈیٹیکشن میں بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں جس کے لیے زیادہ تر لیبروڈار، جرمن شیپرڈ ، بیلجیئن میلینائس سمیت مختلف اعلٰی نسل کے کتے استعمال کیے جاتے ہیں۔'

ڈاکٹر عمران نے بتایا کہ پاکستان میں پولیس اور پاکستان آرمی کے پاس کھوجی کتوں کی ایک یونٹ موجود ہے جس کو مختلف آپریشنز میں استعمال کیا جاتا ہے جو بہت موثر ہوتے ہیں۔ڈاکٹر عمران سے جب پوچھا گیا کہ آپ جس سینٹر کی سربراہی کر رہے ہیں وہ کتوں پر بھی تحقیق کرتا ہے تو کیا کرونا کے حوالے سے کچھ تحقیق کی  گئی ہے۔ اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک حکومت کی جانب سے اس حوالے سے کچھ نہیں کہاگیا ہے تاہم یہ ہماری لیے اعزاز کی بات ہوگی کہ حکومت کرونا کی ڈیٹیکشن کے لیے کتوں کی استعمال کی تحقیق میں ہمارے ادرے کو شریک کرے۔

کیا باہر دنیا میں کتوں کو کرونا ڈیٹکشن کے لیے استعمال کیا جار ہا ہے؟

ائیر پورٹ رپورٹس کے مطابق دبئی دنیا کا پہلا ائیر پورٹ ہے جس نے کرونا مثبت مریضوں کی ڈیٹیکشن کے لیے کھوجی کتوں کو استعمال کیا ہے۔ دبئی کے انگریزی روزنامہ دی نیشنل کی جولائی 2020 کی رپورٹ کے مطابق ائیر پورٹ میں اس مقصد کے لیے ایک الگ کمرہ مختص کیا گیا ہے جہاں پر ان مسافروں سے نمونہ لے کر ایک پنل شکل کے پائپ میں ڈال دیا جاتا ہے ۔

اس کے بعد کتےچھوڑ دیے جاتے ہے اور وہ ایک ایک پائپ جس میں نمونے رکھے گئے ہوتے ہیں، کو سونگھتے اور کسی بھی مثبت کرونا نمونے کے سامنے رک جاتے ہیں جس سے حکام کو پتا چل جاتا ہے کہ اس نمونے میں کرونا وائرس ہو سکتا ہے۔

امریکہ کی یونیورسٹی آف پینسلوانیا کے سکول آف ویٹرنری میڈیسن کے اپریل 2021 میں شائع ایک تحقیقی مقالے کے مطابق کھوجی کتوں کی کرونا وائرس کی درست پہچان کی شرح 96 فیصد ہے یعنی اگر ان کتوں کے سامنے 100 لوگوں کی نمونے رکھے جائے تو وہ 96 نمونوں کی درست طریقے سے نشاندہی کرتے ہے۔

اس تحقیق میں محقیقین نے آٹھ لیبراڈار اور ایک بیلجیئن میلینائس کتوں کی نسل استعمال کیا ہے اور یہ ایسے کتے تھے کہ اس تحقیق سے پہلے ان کو کسی طبی مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا گیا تھا۔

اسی تحقیق کی ایک محقق  سینتیا اوٹھو نے بتایا ہے کہ اس مقصد کے لیے کتوں کو باقاعدہ سونگھنے کی ٹریننگ دینا لازمی ہے تاکہ وہ مرد، اور عورت اور بچوں کی بو سے آشنا ہوجائیں اور اس کے بعد ان کو کرونا وائرس کو سونگھنے کی تربیت دی جائے۔ اس میں مختلف نسل کے لوگوں کی سونگھنے کی ٹریننگ دینا بھی لازمی ہے تاکہ اس کو مزید بہتر ڈیٹیکشن کے لیے استعمال میں لایا جا سکے۔

ڈاکٹر عمران لغاری کے مطابق کتوں کو پہلے دو مہینے 'بیسک اوبیڈنس ' یعنی کتوں کو اپنے تابع کرنے کی تربیت دی جاتی ہے اور اس کے بعد چھ مہینوں تک سونگھنے کے تربیتی عمل سے گزارا جاتا ہے جس کے بعد کتا مکمل طور پر تربیت یافتہ ہو جاتا ہے اور اس کو فیلڈ میں بھیج دیا جاتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ بغیر ٹریننگ کے اس اعلیٰ نسل کی ایک کتے کی قیمت ایک لاکھ روپے تک ہے جبکہ جب کتے کی تربیت مکمل ہو جائے تو اس کی قیمت تین لاکھ سے لے کر چھ لاکھ تک ہوتی ہے جس کو مختلف ادارے خرید کر اس کو فیلڈ ورک کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

یونیورسٹی آف پینسلوانیا کی تحقیق کے مطابق تربیت میں ان کتوں کو منفی اور مثبت  دونوں قسم کے کرونا نمونوں کو سونگھنے کی تربیت دی جاتی ہے جبکہ جو لوگ ویکسین لگوا چکے ہوتے ہے، ان کو سونگھنے کی ٹریننگ بھی دی جاتی ہےاور اس ٹریننگ میں رات کے وقت ان افراد کی پہنے ہوئی شرٹ کتوں کے سامنے رکھی جاتی ہے۔

اسی طرح مختلف مثبت اور منفی لوگوں کے یورین (پیشاب) کو سونگھنے کی ٹریننگ بھی ان کتوں کی دی گئی تھی تاکہ ان سے پتا لگایا جا سکے کہ یہ کتے پیشاب سے کورونا کی موجودگی کی نشاندہی کرنے میں کتنے موثر ہیں۔ جتنے بھی نمونے ان کتوں کو سونگھنے کے لیے فراہم کیے گئے تھے ، ان تمام کو ان ایکٹویٹ (غیر فعال) کیا گیا تھا تاکہ کتوں کو کرونا وائرس لگنے کا خدشہ نہ ہو۔

مقالے کے مطابق اسی  سینٹر نے پہلے کتوں کو کینسر کی مریض کی تشخیص میں استعمال کرنے پر کام کیا تھا تاہم جب کرونا کی وبا دنیا میں سامنے آئی تو ان ماہرین نے یہی کتے کرونا کی تشخیص کے لیے استعمال کرنے پر کام شروع کردیا اور اس پر تحقیق جاری رکھی اور تین ہفتو ں میں یہ کتے اس قابل ہوگئے تھے کہ وہ مثبت اور منفی کرونا نمونوں کی تشخیص کر سکیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس تحقیق کے دوران محققین کو مختلف مراحل سے گزرنا پڑا۔ تحقیق میں ایک ایسے شخص کا نمونہ بھی استعمال کیا گیا جو حالیہ دنوں میں کرونا سے صحت یاب ہوا تھا تاہم جب اس نمونے کو کتے کے سامنے رکھا گیا تو اس کا جواب ' نہیں' تھا یعنی اس میں کرونا وائرس موجود نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی کتے کے حرکات سے پتا چلتا تھا کہ وہ مکمل طور پر پر یقین نہیں ہے کہ اس میں وائرس کی علامات موجود نہیں ہیں۔

تحقیق میں لکھا گیا کہ 'اس سے ہم نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ چونکہ وہ شخص حالیہ دنوں میں کرونا سے صحت یاب ہوا تھا اس لیے اس کے نمونے میں وائرس کے کچھ اثرات موجود تھے جس کی وجہ سے کتا بھی یقینی طور پر یہ نہیں ظاہر کر رہا تھا کہ اس نمونے میں وائرس موجود نہیں ہے۔'

سائنس کے موضوع پر کام کرنے والے نیچر نامی میگزین کے مطابق کتوں میں سونگھنے کی 300 ملین رسیپٹرز موجود ہوتے ہیں جبکہ انسانوں میں ان رسیپٹرز کی تعداد صرف چھ ملین تک ہے جس کی وجہ سے کتے کی سونگھنے کی صلاحیت انسانوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔ 

سائنسدانوں کا خیال ہے کہ کوئی بھی شخص بیماری کے بعد ایک مخصوص قسم کی بو جسم سے نکالتا ہے جس کو کتے سونگھنے کی صلاحیت رکھتے اور یہی وجہ ہے کہ کتوں کو بارودی مواد سمیت نشہ آور ادویات کی سونگھنے میں استعمال کیا جاتا ہے۔

 نیچر میگزین کے مطابق مختلف محقیقین کرونا وائرس کی تشخیص کے لیے کتوں کو انسانی جسم کا پسینہ سونگھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اسی لیے کتوں کو ٹریننگ دی جاتی ہے۔  فن لینڈ اور لبنان کے ایئر پورٹس پر بھی کھوجی کتوں کو کرونا وائرس کی تشخیص کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جہاں پر ان کتوں کی منفی مریضوں کو پہچاننے کرنے کی شرح 100 فیصد جبکہ مثبت نمونوں کی تشخیص میں کتوں کے تشخیص کرنے کی شرح 92 فیصد ہے۔

اس کے علاوہ جرمنی، تھائی لینڈ، برطانیہ، امریکہ سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں کھوجی کتوں کا اس مقصد کے لیے استعمال تجرباتی مراحل سے گزر رہا ہے لیکن تاحال عالمی ادارہ صحت کی جانب سے عمومی طور پر پوری دنیا کے لیے کوئی گائیڈ لائنز جاری نہیں کی گئیں اور نہ ہی ابھی تک کرونا وائرس کی نشاندہی کرنے کے لیے کھوجی کتوں کے استعمال کی سفارش کی گئی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان