بلوچستان کا میگا کرپشن کیس: سابق وزیر خزانہ اور سیکرٹری کو سزائیں

بلوچستان کی تاریخ کا ’میگا کرپشن‘ سکینڈل قرار دیے جانے والے کیس کا فیصلہ چھ سال بعد سنا دیا گیا ہے جس میں سابق مشیر خزانہ خالد لانگو کو 26 ماہ قید اور سابق سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کو دس سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ 

احتساب عدالت سے سزا پانے والے سابق مشیر خزانہ خالد لانگو  (فوٹو:  فیس بک پیج)

بلوچستان کی تاریخ کا ’میگا کرپشن‘ سکینڈل قرار دیے جانے والے کیس کا فیصلہ چھ سال بعد سنا دیا گیا ہے جس میں سابق مشیر خزانہ خالد لانگو کو 26 ماہ قید اور سابق سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کو دس سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ 

میگا کرپشن کیس نواب ثنا اللہ زہری کے دور حکومت میں اس وقت سامنے آیا تھا جب سابق سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کو چھ مئی 2016 کو گرفتار کر کے ان کے گھر سے 73 کروڑ روپے کے کرنسی نوٹ قبضے میں لیے گئے تھے۔

اس کے علاوہ قبضے میں لی جانے والی اشیا میں چار کروڑ کا سونا، پرائزبانڈز، سیونگ سرٹفکیٹس، ڈالر، پاؤنڈز اور مختلف جائیدادوں کے کاغذات شامل تھے۔  

کوئٹہ کی احتساب عدالت کے جج منور احمد شاہوانی نے منگل کو اس کیس کی سماعت کے دوران سابق مشیر خزانہ خالد لانگو، سابق سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی، حافظ باسط اور فیصل جمال کی موجودگی میں فیصلہ سنایا۔

یاد رہے کہ سابق سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کو محکمہ لوکل گورنمںٹ بلوچستان کے فنڈز میں ڈیڑھ ارب خوردبرد کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ 

نیب حکام نے مشتاق رئیسانی کے گھر پر چھاپے کے بعد برآمد رقم کے حوالے سے کہا تھا کہ ان کو اتنی بڑی رقم کی برآمدگی کی توقع نہیں تھی۔ 

عدالت کی جانب سے سابق سیکریٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کو دس سال قید کی سزا سنائی گئی ہے جبکہ مشتاق رئیسانی کی تمام جائیداد ضبط کرنے کا بھی حکم دیا گیا۔ 

احتساب عدالت نے میگا کرپشن کیس میں سابق مشیرِ خزانہ خالد لانگو کو دو سال دو ماہ قید کی سزا سنائی جبکہ سابق سیکریٹری بلدیات عبدالباسط اور سابق سیکریٹری لوکل کونسل فیصل جمال کو بری کر دیا۔ 

عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ میر خالد لانگو کی سزا ان کے ٹرائل کے دوران گرفتاری کے وقت سے شروع ہو گی۔ 

اسی کیس میں گرفتار ٹھیکیدار سہیل مجید اور ان کے بھائی کو پلی بارگین کے بعد رہا کر دیا گیا تھا جبکہ موجودہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری حافظ باسط سمیت دیگر نامزد افراد کو احتساب عدالت پہلے ہی بری کرچکی ہے۔ 

میگا کرپشن کیس میں کب کیا ہوا

مشتاق رئیسانی کی گرفتاری کے بعد ڈائریکٹر جنرل نیب بلوچستان طارق محمود نے میڈیا کو بتایا  تھا کہ سابق سیکرٹری خزانہ کے خلاف بدعنوانی کا مقدمہ 2013 سے چل رہا تھا۔ اس وقت بلوچستان میں نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر مالک بلوچ کی حکومت تھی۔ 

 قومی احتساب بیورو (نیب) نے 2013 میں بلوچستان میگا کرپشن سکینڈل کے مرکزی ملزم سابق سیکریٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کی پلی بارگین کی درخواست منسوخ کر دی تھی۔ 

پلی بارگین کی درخواست کی منسوخی کا فیصلہ چیئرمین نیب قمر زمان کی زیر صدارت ہونے والے ایک اجلاس کے دوران کیا گیا۔ 

یاد رہے کہ سابقہ ادوار میں نواز شریف کے دور حکومت میں بلوچستان میں حکومت پہلے آدھے وقت کے لیے قوم پرست جماعت نیشنل پارٹی  کو دینے اور دوسرے میں مسلم لیگ ن کو دینے کا معاہدہ ہوا تھا۔ 

بعدازاں قومی احتساب بیورو (نیب) نے سابق سیکریٹری خزانہ بلوچستان مشتاق رئیسانی، سابق صوبائی مشیر خزانہ خالد لانگو سمیت چھ ملزمان کے خلاف کرپشن ریفرنس دائر کیا تھا۔ نیب نے 2018 میں میگا کرپشن کیس میں گرفتار سابق سیکریٹری خزانہ مشتاق رئیسانی سے برآمد ایک ارب 25 کروڑ روپے مالیت کی جائیدادوں کی قانونی دستاویزات صوبائی حکومت کے حوالے کر دیں تھیں۔ 

چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے یہ دستاویزات اور چابیاں نیب ہیڈ کوارٹرز کوئٹہ میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران نگران وزیراعلیٰ بلوچستان علاؤ الدین مری کے حوالے کر دی تھیں۔

چیئرمین نیب نے مشتاق رئیسانی کے حوالے سے کہا تھا کہ ان کی گرفتاری اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے، یہ وہ دولت ہے جو چوری نہیں کی گئی بلکہ بلوچستان کے وسائل اور خزانے پر ڈاکا ڈالا گیا، اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 قومی احتساب بیورو کے چئیرمین جسٹس جاوید اقبال کی ہدایت پر نیب بلوچستان نے محکمہ لوکل گورنمنٹ اور خزانہ بلوچستان کے افسران اور مشیر خزانہ کی ملی بھگت سے اربوں روپے کی کرپشن کیس کی تحقیقات شروع کیں تو انکشاف ہوا کہ سابق سیکرٹری خزانہ بلوچستان مشتاق رئیسانی نے سابق مشیر خزانہ خالد لانگو کے ساتھ سازباز کرکے غیر قانونی طور پر دو میونسپل کمیٹیوں خالق آباد اور مچھ کو دو ارب 34 کروڑ روپے جاری کرتے ہوئے دو ارب 25 کروڑ کا غبن کیا۔  

کیس کی تفتیش کے دوران مزید چشم کشا انکشاف سامنے آنے پر سابق سیکرٹری خزانہ بلوچستان مشتاق رئیسانی کے گھر پر قانون کے مطابق چھاپہ مارا گیا جہاں موقع پر تقریباً 80 کروڑ (موجودہ مالیت) لوکل اور فارن کرنسی برآمد ہوئی جبکہ تین کلو تین سو گرام سونا قبضے میں لیا گیا۔ جس کی قومی میڈیا نے نہ صرف براہ راست کوریج کی بلکہ بدعنوانی کے ثبوت قوم کے سامنے لائے گئے۔ 

حقائق سامنے آنے پر خالد لانگو کے فرنٹ مین اور شریک ملزم سہیل مجید شاہ نے جرم تسلیم کرتے ہوئے خرد برد کیے گئے 96 کروڑ روپے سرکار کو واپس جمع کروائے، دوران تفشیش سلیم شاہ اور اس کے بے نامی داروں سے ڈی ایچ اے کراچی کی 11 جائیدادوں کی صورت میں ایک ارب روپے کی ریکوری کی گئی۔ 

شریک ملزمان طارق اور ندیم اقبال سے ایک کروڑ اور 30 لاکھ روپے وصول کیے گئے جبکہ سابق سیکرٹری خزانہ کی جانب سے پلی بارگین کی درخواست نیب کی جانب سے مسترد کر دی گئی۔ 

عدالت نے ملزم مشتاق رئیسانی کے گھر سے برآمد شدہ تقریباً 80 کروڑ روپے کی ضبطگی کا حکم صادر کرتے ہوئے ملزمان کے اربوں روپے کی کوئٹہ اور کراچی میں بنائی گئی جائیدادوں کے ساتھ ساتھ منقولہ اور غیر منقولہ اثاثے ضبط کرنے کے احکامات بھی جاری کر دیے۔

عدالت کے فیصلے کے بعد احتساب کے قانون کی شق 15 کے تحت ملزمان دس سال کے لیے کسی بھی عہدے کے لیے نااہل قرار دیے گئے ہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان