آئی ایم ایف کے ساتھ چھ ارب ڈالرز کا معاہدہ طے

پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے درمیان معیشت کو سہارا دینے کے لیے تین سالوں پر محیط چھ ارب ڈالرز کے ایک معاہدے پر ابتدائی اتفاق رائے حاصل کر لیا گیا ہے۔

وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے خزانہ، ریونیو اور معاشی امور ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ   کے مطابق تین سال کے عرصے میں تقریباً چھ ارب ڈالرز کے علاوہ ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک  سےبھی تقریباً دو سے تین ارب ڈالرز کی اضافی رقم ملنے کی امید ہے۔ فائل تصویر: روئٹرز

پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے درمیان معیشت کو سہارا دینے کے لیے تین سالوں پر محیط چھ ارب ڈالرز کے ایک معاہدے پر ابتدائی اتفاق رائے حاصل کر لیا گیا ہے، تاہم ابھی اس معاہدے کی آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے منظوری دینی باقی ہے۔

اس معاہدے کا اعلان آئی ایم ایف کے مشن، جس کی سربراہی ارنیسٹو رامیرز ریگو کر رہے تھے، اسلام آباد میں پاکستانی حکام کے ساتھ مذاکرات کے خاتمے پر کیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کے بیان کے مطابق چھ ارب ڈالرز کی یہ امداد اگلے 39 ماہ کے لیے ہوگی۔

بیان کے مطابق ’پاکستان کو ایک مشکل معاشی صورتحال کا سامنا ہے جس میں ترقی کی شرح میں کمی، بڑھتا ہوا افراط زر، بڑے قرضے اور کمزور بیرونی حالت شامل ہیں۔ یہ حالیہ برسوں میں غیرہموار اقتصادی پالیسیوں کی عکاسی کرتا ہے۔ آئی ایم ایف آئندہ تین برسوں میں پاکستان کی مائیکرو اکنامک اور سٹرکچرل اصلاحات میں مدد کرے گا۔‘  

وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے خزانہ، ریونیو اور معاشی امور ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے سرکاری ٹیلیویژن پی ٹی وی کو ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ ‘آئی ایم ایف میں جانے سے پاکستان کو جو فائدے نظر آرہے ہیں اس میں تین سال کے عرصے میں تقریباً چھ ارب ڈالرز ملنا اور اس کے علاوہ ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک جیسے مالیاتی اداروں سے بھی تقریباً دو سے تین ارب ڈالرز کی اضافی رقم ملنے کی امید ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ‘اگر 6 ارب ڈالر اور یہ اضافی 2 سے 3 ارب ڈالر کم سود پر ملیں گے تو ہمارے قرضے کی صورتحال میں قدرے بہتری آئے گی اور اس سے دنیا میں ایک اچھا پیغام جائے گا اور سرمایہ کار سمجھیں گے کہ پاکستان میں اصلاحات کی جا رہی ہیں۔‘

آئی ایم ایف کی سخت شرائط کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ’کچھ ایسی چیزیں تھیں جس کو ہمیں خود کرنا چاہیے جیسے کہ اگر آئی ایم ایف کہے کہ اپنے حیثیت کے مطابق اخراجات کریں تو یہ ہمارے بھی مفاد میں ہے، اگر سرکاری ادارے مسلسل خسارے میں جائیں تو ان کو ٹھیک کرنا ہمارے مفاد میں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر ہم امیر لوگوں سے ٹیکس زیادہ لیں تاکہ پورے ملک کا فائدہ ہو تو ایسی باتیں آئی ایم ایف بھی کہہ رہا ہے لیکن یہ ہمارے مفاد میں بھی ہیں۔‘

مہنگائی کے مزید بڑھنے کا اشارہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘کئی ایسے پہلو ہیں جہاں ہم اپنی حیثیت سے زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ ہمیں دنیا کو مالی ڈسپلن کا پیغام دینا ہے۔ ساتھ ساتھ ہماری مالی حیثیت بگڑی ہوئی ہے، اس کو درست کرنا ہے تو لاگت کو برابر کرنے کے لیے ہمیں کچھ قیمتیں بڑھانی ہوں گی۔‘

کیا یہ آئی ایم ایف کے ساتھ آخری پروگرام ہوگا اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’انشاء اللہ! لیکن یہ اس بات پر منحصر ہے کہ ہم کتنی کامیابی سے بطور ملک اس پروگرام پر عمل کرتے ہیں اور فقط اس کو ایک قرض یا ریونیو بڑھانے کا نہیں بلکہ اصلاحات یا اسٹرکچرل تبدیلی کا پروگرام سمجھ کر عمل کرتے ہیں۔‘

معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان کی موجودہ اقتصادی صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ معاہدہ ایک اچھی خبر ہے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا یہ آخری ثابت ہوتا ہے یا نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت