قائمہ کمیٹی سے ریپ کے مجرموں کو جنسی ناکارہ کرنے کا بل منظور

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے ریپ کے مجرموں کی جنسی صلاحیت ختم کرنے (کاسٹریشن) اور ریپ کے مقدمات کی سماعت کے لیے مخصوص عدالتیں قائم کرنے سے متعلق قوانین کی منظوری دے دی۔ 

ریپ کے مقدمات کی سماعت کے لیے مخصوص عدالتیں قائم کرنے سے متعلق قوانین کی منظوری بھی دی گئی(تصویر: سہیل اختر)

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے ریپ کے مجرموں کی جنسی صلاحیت ختم کرنے (کاسٹریشن) اور ریپ کے مقدمات کی سماعت کے لیے مخصوص عدالتیں قائم کرنے سے متعلق قوانین کی منظوری دے دی۔ 

قائمہ کمیٹی کا اجلاس جمعرات کو چئیرمین ریاض فتیانہ کی صدارت میں ہوا، جس میں اینٹی ریپ (انویسٹیگیشن اینڈ ٹرائل) بل 2020 اور کریمنل لا (ترمیمی) بل 2021 منظور کیے گئے۔ 

یاد رہے کہ کمیٹی سے منظوری کے بعد مذکورہ بل دونوں ایوانوں کے سامنے بحث کے لیے رکھے جائیں گے، اور منظوری کے بعد قانون کی حیثیت حاصل کریں گے۔ 

کریمینل لا (ترمیمی) بل کے تحت بار بار ریپ کے مرتکب ہونے والے مجرم کی عدالت کے حکم پر جنسی صلاحیت ختم کی جا سکتی ہے۔   

کمیٹی کے رکن لال چند نے قانون کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’پہلی مرتبہ پر ریپ کے مجرم کو یہ سزا نہیں دی جا سکے گی۔ جنسی صلاحیت صرف ایسے مجرموں کی ختم کی جائے گی جن پر بار بار یہ جرم ثابت ہو گا۔‘ 

انہوں نے کہا کہ اس قانون کا مقصد ریپ کے خلاف ایک خوف پیدا کرنا ہے۔ ’میرا نہیں خیال کہ آئندہ سو سال میں ایک دو مجرموں سے زیادہ کو جنسی صلاحیت ختم کرنے کی سزا دی جا سکے گی۔‘ 

انہوں نے مزید کہا کہ پہلی مرتبہ ریپ کے ملزم کا ملک میں رائج فوجداری قانون کے تحت ہی ٹرائل ہو گا، اور اسی کے تحت سزا ہو گی، تاہم بار بار کے مجرم کو عدالت یہ شدید سزا دے سکتی ہے۔ 

اینٹی ریپ (انویسٹیگیشن اینڈ ٹرائل) بل کے تحت ملک میں ریپ کے مقدمات کی سماعت کے لیے مخصوص عدالتیں قائم کی جائیں گی۔ 

قائمہ کمیٹی برائے قانون اور انصاف کے رکن پیپلز پارٹی سید حسین طارق نے اس بل کی منظوری پر اعتراض کیا۔ 

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’حکومت کو مختف صوبوں میں ریپ کے مقدمات کے لیے مخصوص عدالتیں بنانے میں مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے، کیونکہ یہ صوبائی سبجیکٹ بن جاتا ہے۔‘ 

کمیٹی کے دوسرے رکن نے کہا کہ ’ریپ مقدمات کے لیے سیشن عدالتوں کے لیول پر ٹرائل کورٹس قائم کی جائیں گی، جس سے ان کیسز کی سماعتیں تیز ہوں گی اور فیصلے جلد سامنے آ سکیں گے۔ ‘

واضح رہے کہ گذشتہ سال دسمبر میں صدر ڈاکٹر عارف علوی نے اینٹی ریپ آرڈیننس 2020 کی منظوری دی تھی جس کے تحت خواتین اور بچوں کے ساتھ زیادتی کے جرائم میں سزا یافتہ افراد کی جنسی صلاحیت کیمیائی (کیمیکل) طریقوں سے ختم کی جا سکتی ہے۔  

یاد رہے کہ انسانی اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں جنسی صلاحیت ختم کرنے کی سزا کو بے جا قرار دیتے ہوئے ریپ کو کنٹرول کرنے کے لیے مدلل اقدامات کی ضرورت پر زور دیتی ہیں۔ 

وزیراعظم عمران خان نے جنسی زیادتی کے مجرموں کی جنسی صلاحیت ختم کرنے کے لیے قانون لانے کی منظوری گذشتہ سال نومبر میں دی تھی۔ یہ بھی طے پایا کہ خواجہ سراؤں کے ساتھ جنسی زیادتی کو بھی ریپ تصور کیا جائے گا ۔ 

کمیٹی اجلاس کی روداد 

کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی کی ایم این اے نفیسہ شاہ نے بل کے نکات پر اعتراضات اٹھائے، جب کہ سید حسین طارق نے کہا کہ موجودہ قوانین کو ہی زیادہ موثر کر لیا جائے تو وہ بہتر ہو گا۔  

جمعیت علمائے اسلام (ف) کی عالیہ کامران نے بھی کہا کہ ’یہ صوبائی معاملہ ہے، اور پورے پاکستان پر اطلاق میں مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ ‘ 

تاہم کمیٹی نے چار کے مقابلے میں آٹھ ووٹوں سے اینٹی ریپ بل 2020 منظور کر لیا۔  

پاکستان مسلم لیگ نون کے محمود بشیر ورک نے بھی حکومتی بل کے حق میں ووٹ دیا۔  

وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے اس موقع پر کہا کہ ’مسلم لیگ نون کی حمایت کا مطلب ہے میرا بل ٹھیک ہے۔ ‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نفیسہ شاہ اور عالیہ کامران نے اختلافی نوٹ لکھا جس میں انہوں نے کہا کہ ’بل کی منظوری سے عدلیہ میں تفریق پیدا ہو سکتی ہے۔‘

کریمنل لا ترمیمی بل پر بحث کے دوران وزیر قانون نے بتایا کہ ’اس بل کے تحت ریپ میں بار بار ملوث مجرم کی کیمیکل کاسٹریشن کی جا سکے گی۔‘

اس پر چیئرمین کمیٹی ریاض فتیانہ نے اعتراض کیا کہ ’کیمیکل کاسٹریشن سے مجرم کی اہلیہ کا حق متاثر ہو گا۔‘ عالیہ کامران نے اعتراض کیا کہ ’حکومتی بل آئین کے آرٹیکل 13 کی خلاف ورزی ہے۔‘

پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی سید نوید قمر نے پوچھا کہ ’بتایا جائے کسی مجرم کی پہلے کیمیکل کاسٹریشن کی جائے گی یا سزائے موت دی جائے گی‘ جس پر وزیر قانون نے کہا کہ ’ایک مرتبہ عمر قید کاٹنے کے بعد مجرم دوبارہ جرم کرے گا تو کیمیکل کاسٹریشن کی سزا ہو گی۔‘  

کمیٹی نے نیب ترمیمی بل 2021 کی بھی منظوری دی، جس کے تحت پراسیکیوٹر جنرل کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد دوبارہ تعیناتی ہو سکے گی۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان