اسرائیلی سیاست میں آپریشن سیف القدس کا کردار

غزہ کی پٹی میں نہتے شہریوں کے خلاف نیتن یاہو کی ننگی فوجی جارحیت نے ان کے شرمناک سیاسی انجام کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا۔

بنیامین نیتن یاہو کا ایک انتخابی پوسٹر (اے ایف پی)

یہ تحریر آپ یہاں مصنف کی آواز میں سن بھی سکتے ہیں
 

 


اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو قابل عمل حکومت تشکیل دینے میں ناکام ہوئے تو انہیں دو برسوں کے دوران چوتھی مرتبہ مجبورا رواں سال مارچ میں انتخاب منعقد کرانا پڑے۔ انتخابات کے نتیجے میں زچ کرنے والی ایک نئی صورت حال ان کا منہ چڑانے لگی کیونکہ دائیں بازو کی دیگر اسرائیلی سیاسی جماعتیں انہیں وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز نہیں دیکھنا چاہتی تھیں۔

اس عدیم النظیر پیش رفت نے مقبوضہ ریاست کے سیاسی ڈھانچے میں دراڑوں کو نمایاں کرنا شروع کر دیا۔ سیاسی تنازعات ذاتی بغض وعناد کا روپ دھارنے لگے۔

نیتن یاہو، اسرائیل کے بانی وزیر اعظم اور صہیونی منصوبہ کے روح رواں ڈیوڈ بن گوریان سے زیادہ مقبول رہنما بننے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ وہ پورے فلسطین اور ہمسایہ عرب ملکوں تک صہیونی ریاست کا پھیلاؤ چاہتے تھے۔ وادی اردن اور مغربی کنارے کا اسرائیلی ریاست میں انضمام ان کے ایجنڈے کا اہم حصہ رہا ہے۔ یہ ایک ایسا خواب تھا کہ جو بن گوریان بھی پورا نہیں کر سکے۔

بنیامین کے مختلف الخیال سیاسی مخالفین ایک نکتے پر متفق تھے کہ ’بی بی‘ کو وزارت عظمیٰ  کے منصب پر فائر نہیں رہنا چاہیے۔ سیاسی بچاؤ کی تمام کوششوں میں نیتن یاہو مکمل طور پر ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ بدعنوانی کے مقدمات کی پاداش میں جیل جانے سے بچنے کے لیے اب انہیں قانونی جنگ لڑنا ہوگی۔

ایوان اقتدار سے نیتن یاہو کی ہزیمت آمیز رخصتی پر اسرائیل میں کوئی آنسو بہانے والا نہیں، حالانکہ انہوں نے صہیونی ریاست کے لیے ایسے کار ہائے نمایاں سرانجام دیے ہیں جن کا اعتراف غیرجانبدار سیاسی پندٹ بھی کرتے ہیں۔ انہی کارناموں میں دستور میں اسرائیل کو ’یہودی ریاست‘ قرار دلوانا شامل تھا۔

بین الاقوامی قانون مقبوضہ عرب علاقوں میں یہودی بستیوں کو غیرقانونی سمجھتا ہے لیکن نیتن یاہو آئے روز ان میں توسیع کے منصوبے مشتہر کر کے انہیں ’قانونی‘ قرار دلوانے میں کوشاں رہے۔ انہی کے دور اقتدار میں امریکے نے یروشیلم کو اپنا غیر منقسم دارالحکومت قرار دیتے ہوئے تل ابیب سے اپنا سفارت خانہ مقبوضہ بیت المقدس منتقل کیا۔ امریکہ نے گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی تسلط کو جائز مان کر اسے صہیونی ریاست کا اٹوٹ انگ قرار دیے دیا۔ اگرچہ بین الاقوامی قانون کی رو سے دونوں اقدامات کی کوئی قانونی وقعت نہیں ہے۔

عرب ملکوں سے اسرائیلی ریاست کے تعلقات میں نارملائزیشن سفارتی محاذ پر نیتن یاہو کا بڑا کارنامہ شمار کیا جاتا ہے۔ عرب ملکوں سے سفارتی تعلقات کا اسرائیل کو بھاری مالی فائدہ ہوا۔ اس مالی آسودگی کو اسرائیل نے کرونا کی عالمی وبا کے باعث ہونے والے بجٹ خسارے پر قابو پانے کے لیے استعمال کیا۔

کرپشن اور دھوکہ دہی کے مقدمات میں نیتن یاہو پر فرد جرم کے بعد ان کی مقبولیت میں ڈرامائی اندار میں کمی آئی۔ وزارت عظمیٰ کے دوران ایسے مقدمات کا سامنا کرنے والے وہ اسرائیل کے پہلے انتظامی سربراہ ہیں۔

کیا صرف بدعنوانی کے مقدمات ہی نیتن یاہو حکومت کے زوال کا باعث بنے ہیں یا دیگر وجوہات نے بھی اسرائیلی تاریخ کے طویل ترین حکمران کو سیاسی طور پر مردہ گھوڑا ثابت کرنے میں اپنا کردار ادا کیا؟ اس کالم نگار کی سوچی سمجھی رائے ہے کہ غزہ کی پٹی میں نہتے شہریوں کے خلاف ’بی بی‘ کی ننگی فوجی جارحیت نے ان کے شرمناک سیاسی انجام کو قریب لانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔

نیتن یاہو سمجھتے تھے کہ وہ غزہ پر حملے کے ذریعے ’یش عتید‘ پارٹی کے سربراہ اور اپنے سیاسی حریف یائیر لپید کی جانب سے حکومت سازی کی کوششوں کو ناکام بنا دیں گے۔ نیتن یاہو مقررہ مدت کے دوران حکومت تشکیل دینے میں ناکام رہے تو اس کے بعد اسرائیلی صدر نے لپید کو نئی حکومت تشکیل دینے کی دعوت دی۔

غزہ کے خلاف حالیہ خوفناک جارحیت کے ذریعے نتین یاہو خود کو درپیش ذاتی اور سیاسی مشکلات کا رخ موڑنا چاہتے تھے، تاہم سب کچھ ان کے طے کردہ پلان کے مطابق نہ ہو سکا۔ فلسطینی مزاحمت اور بالخصوص اس کے میزائلوں کی دور مار اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت نے نیتن یاہو کے چھکے چھڑا دیے۔ شہرہ آفاق میزائل شکن ’آئرن ڈوم‘ بھی فلسطینی مزاحمت کے ان متواضع ہتھیاروں کے مقابلے میں سد جارحیت نہ بن سکا۔

گیارہ دنوں تک غزہ پر آتش وآہن کے بارش کے بعد بھی نیتن یاہو اپنے کسی ہدف کو حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ وہ مزاحمتی گروپوں کے کسی نمایاں رہنما کا سر بھی اسرائیلوں کے سامنے اپنی کامیابی کی دلیل کے طور پر پیش کرنے میں ناکام رہے۔ مجبورا انہیں یکطرفہ طور پر ’سیز فائر‘ کا اعلان کرنا پڑا۔

تل ابیب کے بن گوریان ہوائی اڈے کے نواح میں فلسطینی میزائل حملوں کے دوران پناہ کے لیے زیر زمین بنکروں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے یہودی آباد کاروں کی روتی دھوتی تصاویر سے عوامی غیظ وغضب میں اضافہ ہوا۔ یہ صورت حال ان کے خلاف سنگین ایف آئی آر ثابت ہوئی، جسے ان کے سیاسی مخالفین نے بھرپور انداز میں کیش کروایا۔

نیتن یاہو کے شاگرد خاص اور انتہائی دائیں بازو کی’یمینا‘ پارٹی سے تعلق رکھنے والے نیفتالی بینیٹ امکانی طور پر اسرائیل کی نئی اتحادی حکومت کے پہلے وزیر اعظم ہوں گے۔

نیفتالی اسرائیل میں یہودی آبادکاروں کے محبوب قائد ہیں۔ وہ یہودیوں کے لیے بستیوں کی تعمیر پر روک لگانے کی بجائے ان میں توسیع کے پرزور حامی ہیں۔ نیز وہ غزہ میں سیاسی عمل کی بجائے دنیا کی کثیف آبادی والے اس علاقے کو فوجی کارروائی کے ذریعے زیر نگین بنانا چاہتے ہیں۔

لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ دائیں بازو کے واضح سیاسی ایجنڈے کے حامل نیفتالی بینیٹ، فلسطینی عربوں کی بزعم خویش اسلام پسند جماعت کے سربراہ منصور عباس کے ساتھ کیوں کر آگے بڑھ سکتے ہیں؟ سیاسی حلقے نفتالی ۔ منصور بے جوڑ سیاسی سگائی پر حیرت اور ناراضی کا اظہار کر رہے ہیں۔ نیتن یاہو حکومت کے خاتمے کے سوا نفتالی ۔ منصور اتحاد کا کوئی عملی فائدہ دکھائی نہیں دیتا۔ اسرائیل کا سیاسی منظر نامہ نئے چہروں کے ساتھ جوں کا توں برقرار رہے گا اور اسی میں ہی صہیونی ریاست کی بقا کا راز مضمر ہے۔

اسرائیل میں نئی حکومت بھی ’تبدیلی‘ کے نعرے کے ساتھ آ رہی ہے۔ تبدیلی کی خواہش میں جس طرح پاکستان میں مانگے تانگے کی سیاسی حمایت سے نام نہاد اتحادی حکومت تشکیل دی گئی اسے دیکھتے ہوئے سیاسی مبصرین ابھی سے ہی اسرائیلیوں کے جنون کی ناکامی کی پیش گوئیاں کرنے لگے ہیں۔

نسل پرست رائٹ ونگ اسرائیلی جماعت ایک عرب سیاسی جماعت کو ساتھ ملا کر کون سی تبدیلی لا سکے گی۔ منصور عباس کی خود ساختہ اسلامی جماعت فلسطینی عربوں کو دوسرے درجے کا اسرائیلی شہری سمجھنے پر اسرائیل کے خلاف دوغلے پن کا الزام لگاتی ہے۔

منصور عباس کی جماعت اسلامی کا تعلق سرکردہ دینی سیاسی جماعت اخوان المسلمون سے جوڑنے کی بھی کوششیں کی جا رہی ہیں حالانکہ اخوان المسلمون ایک بیان کے ذریعے منصور عباس اور ان کی جماعت سے کسی بھی قسم کے فکری یا تنظیمی تعلق کی تردید کر چکے ہیں۔

کیا ’بادشاہ گر‘ کا لقب پانے والے منصور عباس، اسرائیل کی نئی اتحادی حکومت کے دور میں غزہ پر کوئی نئی مہم جوئی رکوا سکیں گے۔ کیا وہ مسجد اقصیٰ میں عبادت گزاروں پر اسرائیلی تشدد پر بند کروا پائیں گے؟ کیا وہ شیخ جراح کے باسیوں کو اپنے گھروں سے بیدخلی سے بچانے کے لیے 2017 میں منظور کیا جانا متعصب اسرائیلی قانون منسوخ کروا پائیں گے؟ کیا نیفتالی عرب علاقوں کی تعمیر وترقی کے لیے اضافی 16 ارب ڈالر کا بجٹ منظور کرانے کے وعدے پر عمل کروا سکیں گے؟ کیا وہ اسرائیل سے بدؤوں کے تین دیہات کی قانونی حیثیت تسلیم کروانے میں کامیاب ہوں گے؟

ان سب سوالوں کا جواب نوشتہ دیوار ہے جسے دیکھ کر سیاسی پنڈت ابھی سے قیاس آرائیاں کرنے لگے ہیں کہ اسرائیل میں ’تبدیلی سرکار‘ زیادہ دیر چلنے والی نہیں۔ اسرائیلیوں کی بڑی تعداد منصور عباس کو ’دہشت گرد‘ سمجھتی ہے۔ ایسے میں صہیونی عوام اور یہودی آبادکار ان کا اسرائیلی کابینہ میں وجود کیسے برداشت کریں گے؟ درایں اثنا لیکوڈ جماعت کے سینیئر رہنما حکومت گرانے کی مقدور بھر کوششیں کریں گے۔ ایسی بے سرو پا اور کمزور حکومت کو گرانا مشکل کام نہیں ہو گا۔

غزہ کے سیف القدس آپریشن سے اگرچہ نیتن یاہو کا سر عملاً تن سے جدا نہیں ہوا، تاہم کرپشن مقدمات میں جیل جانے سے بچنے کے بعد بھی اسرائیلی سیاست میں ’بی بی‘ زندہ باد کا نعرہ آئندہ کبھی نہیں سنائی دے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ