نیٹو کا ’چینی خطرے‘ کا مفروضہ مبالغہ آرائی پر مبنی ہے: چین

مغربی اتحادی ممالک نے چینی پالیسیوں کے نتیجے میں لاحق ’منظم چیلنجز‘ کے مقابلے کے لیے مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے جس کے بعد چین نے نیٹو پر مبالغہ آرائی سے گریز کرنے پر زور دیا ہے۔

چینی وزارت خزانہ نے مارچ میں اعلان کیا تھا کہ ملکی فوجی بجٹ میں سال 2021 کے لیے 6.8 فیصد اضافہ کیا جائے گا(فائل فوٹو: اے ایف پی)

چین نے الزام عائد کیا ہے کہ نیٹو چین کی جانب سے خطرے کے معاملے پر مبالغہ آرائی سے کام لے رہا ہے اور ’محاذ آرائی کی فضا پیدا کررہا ہے۔‘

چین کا یہ ردعمل منگل کو نیٹو کے اس بیان کے بعد سامنے آیا جس میں مغربی اتحادی ممالک نے چینی پالیسیوں کے نتیجے میں لاحق ’منظم چیلنجز‘ کے مقابلے کے لیے مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا تھا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق نیٹو رہنماؤں نے پیر کو بیان جاری کیا تھا جب امریکی صدر جوبائیڈن نے اتحادیوں کے ساتھ پہلی سربراہ ملاقات میں بحر اوقیانوس کے پار ممالک کے ساتھ واشنگٹن کے تعلقات کی تجدید کی۔

اپنے ارادے کے بارے میں جامع بیان میں نیٹو رہنماؤں نے کہا کہ ایٹمی اسلحے کی تیاری کے سلسلے میں چین کے اقدامات میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس کی خلائی اور سائبر جنگ کی صلاحیتیں بین الااقوامی آرڈر کے لیے خطرہ بن گئی ہیں۔

اس بیان کے ردعمل میں یورپی یونین میں چینی مشن نے غصے سے بھرا ایک بیان جاری کیا جس میں نیٹو پر زور دیا گیا کہ وہ ’چین کی ترقی کو عقلی طور پر دیکھے اور ’چینی خطرے کے نظریے‘ کی مختلف شکلوں کے بارے میں مبالغہ آرائی بند کرے۔

’دی انڈپینڈنٹ‘ کے مطابق نیٹو نے پہلی بار چین کی طرف سے فوجی ’چینلج‘ کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ امریکہ کا صدر منتخب ہونے کے بعد جو بائیڈن نے اپنی پہلے نیٹو سربراہ اجلاس میں شرکت کی جس کے اختتام پر اتحاد نے اعلان کیا کہ چین اپنے آمرانہ اور جارحانہ رویے سے قواعد وضوابط کی بنیاد پر قائم بین الاقوامی آرڈر اور مغربی ممالک کی سلامتی کو چینلج کر رہا ہے۔

نیٹو دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد روس کے مقابلے کے لیے یورپ میں قائم کی جانے والی تنظیم  ہے۔

 تنظیم کے اعلامیے میں چین پر تنقید پر توجہ مرکوز کرنے کے فیصلے کے بعد امریکی انتظامیہ کی کوششیں سامنے آئیں، جن کا مقصد مغربی اتحادیوں کو بیجنگ کی توسیع پسندانہ پالیسیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مقابلے کے لیے تیار کرنا ہے۔

 اے ایف پی کے مطابق چینی مشن کے بیان میں مزید کہا گیا کہ ’نیٹو چین کے جائز مفادات اور قانونی حقوق پر سیاست اور مصنوعی محاذ آرائی سے گریز کرے۔‘

بیان میں چینی مشن کا کہنا تھا کہ نیٹو کے الزامات ’چین کی پرامن ترقی کو بدنام کرنے، عالمی حالات اور ان میں خود نیٹو کے کردار کے بارے میں غلط فہمی ہیں۔ یہ سرد جنگ کی ذہنیت کا تسلسل ہیں اور گروپ کی سطح پر سیاست کی نفسیات کام کر رہی ہے۔‘

گذشتہ برسوں میں چین اور اس کی حریف طاقتوں، جن میں امریکہ اور بھارت شامل ہیں، کے درمیان فوجی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس ضمن میں ہمالیائی سرحد، تائیوان اور جنوبی چین کے سمندر کے مقامات قابل ذکر ہیں۔

امریکہ کے بعد چین کا فوجی بجٹ دنیا میں سب سے بڑا ہے۔ تاہم اس کے باوجود یہ واشنگٹن کے بجٹ سے تین تہائی کم ہے۔

چینی وزارت خزانہ نے مارچ میں اعلان کیا تھا کہ ملکی فوجی بجٹ میں2021 کے لیے 6.8 فیصد اضافہ کیا جائے گا۔

چین نے اپنے خلائی پروگرام پر بھی اربوں ڈالر خرچ کیے ہیں تاکہ اس شعبے میں پہل کرنے والے روس اور امریکہ تک پہنچ سکے۔

نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز سٹولٹنبرگ نے کہا ہے کہ اتحادی ممالک موسمیاتی تبدیلی جیسے مسائل پر چین کے ساتھ تعاون کرنا چاہیں گے۔

لیکن انہوں نے دوسرے معاملات پر چین کے بڑھتے ہوئے دعوے پر مبنی مؤقف پر تنقید کی ہے۔

بیانات کا یہ تبادلہ برطانیہ میں چینی سفارت خانے کے اس ردعمل کے ایک دن بعد ہوا جس میں کہا گیا کہ جی سیون ’سیاسی داؤ پیچ آزما رہا ہے۔‘

اس سے پہلے جی سیون نے چین کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ برطانیہ میں ہونے والے تین روزہ سربراہ اجلاس کے بعد ایک اعلامیے میں جی سیون رہنماؤں نے ہانگ کانگ میں جمہوریت نواز کارکنوں اور سنکیانگ کے علاقے میں اقلیتوں کے ساتھ بدسلوکی پر چین پر سخت تنقید کی۔

انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ چین نے سنکیانگ میں ایک اندازے کے مطابق 10 لاکھ سے زیادہ اویغور مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کو حراستی کیمپوں تک محدود کر دیا ہے، جبکہ بیجنگ کا کہنا ہے کہ اس کارروائی کا مقصد اسلامی شدت پسندی کا خاتمہ ہے۔

بائیڈن نے چین پر زور دیا ہے کہ وہ انسانی حقوق کے معاملے میں بین اقوامی اقدار پر بہتر انداز میں عمل کرنا شروع کرے۔

انسانی حقوق کے علاوہ حالیہ برسوں میں واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان متعدد دوسرے محاذوں پر بھی کشیدگی بڑھی ہے جن میں تجارت، ٹیکنالوجی اور کووڈ19 کی وبا کے آغاز کا مقام شامل ہے۔

سربراہ اجلاس کے اعلامیے میں نیٹو رہنماؤں نے روس کے صدر ولادی میر پوتن کو بھی خبردار کیا گیا۔ یاد رہے امریکی صدر بائیڈن بدھ (16) جون کو جنیوا میں روسی صدر پوتن سے ملاقات کریں گے۔

 نیٹو رہنماؤں کا کہنا ہے کہ نیٹو کی مشرقی سرحد پر روس کی جانب سے فوج کی تعداد میں اضافہ اور اس کی جانب سے اشتعال انگیز رویہ نیٹو کی سرحدوں اور ان کے پار عدم استحکام کا سبب بن رہا ہے۔

29 ممالک کے سربراہان کے اجلاس کے لیے برسلز میں نیٹو ہیڈ کوارٹر آمد کے موقعے پر امریکی صدر جو بائیڈن نے زور دیا تھا کہ یہ اتحاد امریکی سلامتی کے لیے انتہائی اہم ہے۔

بائیڈن کے بقول: ’میں سمجھتا ہوں کہ گذشتہ چند برسوں سے یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ ہمیں نئے چیلجنز کا سامنا ہے۔‘

یہ بات انہوں نے سربراہ اجلاس سے پہلے سٹولٹنبرگ سے دوطرفہ مذاکرات کے دوران کہی۔

 ان کا کہنا تھا: ’روس اور چین موجود ہیں جو ہماری توقعات کے مطابق عمل نہیں کر رہے۔ میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ نیٹو اپنے اندر اور باہر امریکی مفادات کے لیے انتہائی اہم ہے۔ اگر نیٹو نہ ہوتا تو ہمیں اسے قائم کرنا پڑتا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا