پوتن بائیڈن ملاقات سے کیا توقعات رکھی جائیں؟

بائیڈن کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون کے مطابق اس ملاقات کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ روس ایسا رویہ اختیار کرے جس کی پیش گوئی کی جا سکے۔

جن حالات میں روس امریکہ سربراہ ملاقات ہو رہی ہے وہ ان سے بہت مختلف ہیں جب بائیڈن ،اوبامہ دور میں نائب صدر کی حیثیت سے اقتدار میں تھے (فوٹو: اے ایف پی)

تین سال پہلے روس کے صدر ولادی میر پوتن نے فن لینڈ کے شہر ہیلسنکی میں ایک امریکی صدر سے ملاقات کی اور ان کی خود کو تباہ کر دینے کی صلاحیت رکھنے والا بٹن دبانے میں مدد کی۔ پریس کانفرنس میں ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ اعلان کہ ان کے پاس روسی رہنما کے ان وعدوں پر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ انہوں نے امریکی انتخابات میں مداخلت نہیں کی، حیرت کا سبب بن گیا اور ان کی بقیہ مدت صدارت میں زیادہ تر شہ سرخیوں پرغالب رہا۔

بدھ کو جینیوا میں ہونے والی سربراہ ملاقات کہیں زیادہ مایوس کن ہونے کا امکان ہے۔ کم ازکم 2008 سے امریکہ اور روس کے تعلقات بہت خراب چلے آ رہے ہیں اور ابھی تک دونوں ملکوں میں غیراعلانیہ لڑائی جاری ہے۔ ان حالات میں کوئی بڑی پیشرفت ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ کوئی مشترکہ پریس اور کوئی دکھاوا بھی نہیں ہوگا۔ اپنے پیش رو کے برعکس جوبائیڈن محض دکھاوے کے لیے بھی یہ ظاہر نہیں کر رہے کہ وہ روس سے تعقات کو ازسرنو استوار کرنا چاہتے ہیں۔

مقامی لوگ دیکھ رہے کہ ان کے شہر میں خاردار تاریں بچھا دی گئی ہیں۔ وہ یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ سارا تماشہ کس لیے ہے۔

لیکن اس کے باوجود فریقین کے مقاصد کافی اہم ہیں۔ بائیڈن کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون کے مطابق اس ملاقات کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ روس ایسا رویہ اختیار کرے جس کی پیش گوئی کی جا سکے، جبکہ کریملن کے لیے اس ملاقات کا مقصد کریمیا کے الحاق کے بعد روسی ساکھ کی بحالی اور اپنے لیڈر کو عالمی سطح پر نمایاں کرنا ہے۔

اس ملاقات کے لیے کئی ہفتے سے تیاریاں جاری ہیں اور مبینہ طور پر حتمی ایجنڈے پر اتفاق کرلیا گیا ہے۔ صدر بائیڈن اور پوتن مقامی وقت کے مطابق دن ایک بجے 18ویں صدی کے ایک ایسے ولا میں ملاقات کریں گے جہاں سے نیچے جینیوا کی جھیل دکھائی دیتی ہے۔ وہ پانچ گھنٹے تک جاری رہنی والی بات چیت کے لیے بیٹھیں گے۔ پہلے صدور اور وزرائے خارجہ پر مشتمل چھوٹے وفود کے ساتھ اور اس کے بعد اس ملاقات میں زیادہ لوگ شامل ہوں گے اور اس کے بعد غالباً ون ٹو ون ملاقات ہوگی جس میں صرف ان کے ساتھ صرف مترجمین موجود ہوں گے۔

اس لیے یہ ذہن میں رکھتے ہوئے ہم کن چیزوں کی توقع کر سکتے ہیں؟

1۔ مشترکہ اعلامیہ

روس امریکہ سربراہ ملاقات کے حوالے سے جو کچھ بھی سامنے آیا، اس سے پتہ چلتا ہے کہ مشترکہ اعلامیہ تیار کیا جا رہا ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ کوئی بھی متن سفارتی جنگ کے خاتمے، سفیروں کے تبادلے اور دونوں ملکوں کے قونصل خانوں میں عملے کی مکمل یا جزوی طور پر دوبارہ تعیناتی کا اعلان کر دے گا۔ سابق روسی سفارت کار ولادی میر فرولوف کا کہنا ہے کہ اعلامیے میں سٹریٹیجک استحکام پر مبنی کئی سال تک جاری رہنے والی ’بات چیت‘ کا بھی اعلان کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اعلامیے میں افغانستان، شمالی کوریا، لیبیا اور شام جیسے علاقائی سلامتی کے مسائل کو بھی شامل کرلیا جائے۔

2۔ جمہوری قالب میں ڈھالنے کے امریکی بیانیے میں دراڑیں

اپنی مدت صدارت میں جوبائیڈن نے اب تک بظاہر دو متضاد نظریات کو کو یکجا کیا ہے، جن میں سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کی حقیقت پسندی اور سابق صدر جمی کارٹر کا آئیڈیل ازم شامل ہیں۔ جہاں تک بیانیے کا تعلق ہے روس کے پاس بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ مثال کے طور پر سربراہ ملاقات سے پہلے امریکی صدر نے وعدہ کیا ہے کہ وہ پوتن کی جانب سے مخالفت میں اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کے مسائل پر بات کریں گے جبکہ انہیں ہیکنگ اور مداخلت کے حوالے سے بھی اپنے موقف سے آگاہ کریں گے۔ عام فہم کہتی ہے کہ ان میں سے صرف ایک معاملے کو ترجیح ملے گی۔

روس میں حزب اختلاف کے جیل میں بند رہنما الیکسی نوالنی اور انسانی حقوق کے معاملے پر بائیڈن کے بیانیے پر توجہ دینا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔ کریملن کے بیانات سے مطابقت نہ رکھنے والی کوئی بھی بات اس حوالے سے اہم اشارے دے سکتی ہے کہ وائٹ ہاؤس اس موضوع پر اپنے روسی پارٹنرز پر حقیقت میں کتنا دباؤ ڈال رہا ہے۔

 3۔ روس کے بارے میں نئی سوچ

اب جن حالات میں روس امریکہ سربراہ ملاقات ہو رہی ہے وہ ان سے بہت مختلف ہیں جب جو بائیڈن، اوبامہ دور میں نائب صدر کی حیثیت سے اقتدار میں تھے۔ یہ وقت سیاست میں امریکی بالادستی کا نکتہ عروج تھا۔ اوبامہ نے روس کو علاقائی طاقت قرار دے کر جھٹلا دیا تھا۔ ان کے اس اقدام کو شہرت ملی۔ (اس حملے سے پوتن مبینہ طور پر غصے میں آ گئے تھے)، اب ٹرمپ کے بعد کی دنیا میں امریکہ اپنے زائل ہو جانے والے اثرورسوخ کو بحال کرنے کی کوشش میں مصروف ہے جبکہ روس الگ سمت میں اپنے آپ کو مضبوط بنا رہا ہے جو قومی سرمایہ دارانہ آمریت ہے۔

ابھی تک واضح نہیں ہے کہ بائیڈن کی ٹیم اب تک ان تبدیلیوں کا مقابلہ کر پائی ہے یا نہیں۔ 2013 میں پوتن کے روس پر ’فریجائل ایمپائر‘ کے عنوان سے کتاب لکھنے والے مصنف بین جوڈا نے کہا ہے کہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ امریکی صدر کی ٹیم اس سابقہ دور کے خیالات میں الجھی ہوئی ہے۔ کتاب کے مطابق: ’ان میں اکثر کا ماننا ہے کہ معیشت کی وجہ سے (روسی) انتظامیہ بہت بڑی مشکل میں ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ صرف اپنا کنٹرول بڑھانے میں مصروف ہے۔‘

4۔ یوکرین پر سمجھوتہ

وہ جس حد تک اس معاملے پر اختلاف کرتے ہیں اس کے پیش نظریہ توقع نہیں کی جا رہی تھی کہ یوکرین مذاکرات میں اہم موضوع ہو گا۔ مثال کے طور پر روس کا اب بھی دعویٰ ہے کہ وہ اس لڑائی میں فریق نہیں جسے وہ سات سال سے ہوا دے رہا ہے۔ اس کے باوجود کریملن نے بدھ کو تصدیق کی ہے کہ اس کے بڑے حامی دمتری کوزک صدارتی مذاکرات میں شریک ہوں گے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ممکن ہے کہ کوئی سنجیدہ ڈیل تیاری کے مراحل میں ہو۔

یوکرین کے سیاسی ماہر ولادی میر فسنکو نے بہت زیادہ امید رکھنے کے خلاف خبردار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ مذاکرات کشیدگی کے خاتمے کی ہاٹ لائن کی بحالی پر اتفاق کے ساتھ شروع ہوں اور ختم ہو جائیں، لیکن سابق روسی سفارت کار نے کہا ہے کہ مذاکرات اس سے آگے جا سکتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ہو سکتا کہ مذاکرات کی تفصیل کبھی عام نہ کی جائے۔

5۔ اتفاق کا استحکام

کانفرنس سے پہلے روس کے سرکاری ٹیلی ویژن نے امریکی صدر پر جانے پہچانے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان سے اکثر ہو جانے والی غلطیوں کو انہیں عمررسیدہ اور بے وقوف شخص کے طور پر پیش کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ دوسری جانب روس کو امریکی ذرائع ابلاغ میں منفی انداز میں پیش کیا جاتا ہے لیکن ممکن ہے کہ مستقبل میں ہونے والے انتخابات کے ادوار دوطرفہ تعلقات پر سب سے زیادہ دباؤ ڈالیں۔

 امریکہ میں وسط مدتی انتخابات 2022 میں ہوں گے اور فطری طور پر کریملن نواز ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ سامنے آنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ دریں اثنا روس میں پارلیمانی انتخابات ستمبر میں ہونے ہیں۔

یہ ماننا مشکل دکھائی دیتا ہے کہ پوتن اور ان کی ٹیم خوف کی علامت سمجھے جانے والے ایک کردار کو استعمال کرنے سے رک پائیں گے اور امریکہ کو ایک بار پھر سے عوام کے دشمن نمبر ایک کی صف میں واپس دھکیل دیں گے۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا