پنجاب اسمبلی کی نئی عمارت ضرورت یا ’امیروں کا کھیل؟‘

نئی عمارت میں وزیراعلی، سپیکر، ڈپٹی سپیکر، اپوزیشن لیڈر، 38 وزرا کے دفاتر الگ سے تیار کرائے گئے ہیں۔

پاکستان میں سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ پنجاب ہے جہاں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق بارہ کروڑ سے زائد عوام رہتے ہیں۔ غربت اور بنیادی سہولیات کے مسائل یہاں بھی دیگر صوبوں کی طرح موجود ہیں۔
تعلیم، صحت، صاف پانی کی فراہمی اور روزگار کے کئی منصوبے جو سابقہ حکومتوں کے ادوار میں شروع کیے گئے ان سب کے باوجود یہ مسائل بڑی حد تک باقی ہیں۔

حالیہ دنوں میں پنجاب اسمبلی کی نئی عمارت کی تعمیر مکمل ہونے اور یہاں پہلا اجلاس منعقد ہونے کے بعد جہاں سیاسی نمائندوں کی جانب سے اس پر تنقید کی جا رہی ہے وہیں اس منصوبے کا دفاع بھی کیا جا رہا ہے۔

سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں پنجاب کے دارالحکومت لاہورمیں پہلے سے موجود اسمبلی ایوان کو ارکان کی تعداد کے مقابلہ میں ناکافی قرار دے کر نئی عمارت بنانے کی منظوری دی گئی تھی۔

اس عمارت کی تکمیل منظوری کے پندرہ سال بعد ہوئی جس کا ذمہ دار مسلم لیگ ن کے دس سالہ دور کو قرار دیا جاتا رہا اور اخراجات تین ارب روپے تک بڑھنے کی رپورٹس سامنے آئیں۔

نئی عمارت میں وزیراعلیٰ، سپیکر، ڈپٹی سپیکر، اپوزیشن لیڈر، 38 وزرا کے دفاتر الگ سے تیار کرائے گئے ہیں۔

اس عمارت میں پریس کانفرنس ہال، ڈسپنسری، لائبریری، سکیورٹی مانیٹرنگ روم، آئی ٹی ڈیٹا سینٹر، چار سو سے زائد گاڑیوں کی پارکنگ اور مسجد بھی بنائی گئی ہے۔

اخراجات:

چودھری پرویز الہی کے مطابق اس منصوبہ کا آغاز کیا گیا تو لاگت کا تخمینہ 2ارب 37کروڑ لگایا گیا تھا۔ اس منصوبے پر2006 میں عملی کام شروع ہوا اور 2007 تک اس کا تعمیراتی کام کافی مکمل ہو گیا تھا۔ لیکن حکومت تبدیل ہوتے ہی2008 میں اس منصوبے پر کام روک دیا گیا۔

سپیکر پنجاب اسمبلی نے ایک بیان میں کہا کہ ہم نے 2018 میں دوبارہ کام شروع کرایا اور مکمل ہونے تک اس کی لاگت پانچ ارب 39 کروڑ تک جا پہنچی۔ یوں دس سال کی تاخیر سے تین ارب روپے کے زائد اخراجات ہوئے ہیں۔

پنجاب کے محکمہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ریکارڈ کے مطابق شہباز شریف حکومت نے بھی 2017 میں پنجاب اسمبلی عمارت پر دوبارہ کام شروع کرنے کے منصوبہ کا تخمینہ لگایا۔ جس کے مطابق اس پر 65 کروڑ روپے تک خرچ کرنے کی منظوری دی گئی۔

اس حوالے سے سال 2018 کے بجٹ میں 40 کروڑ جبکہ 2019 کے بجٹ میں 22 کروڑ50 لاکھ روپے رکھنے کی منظوری دی گئی تھی۔ لیکن اس پی سی ون پر عمل درآمد نہیں ہوسکا کیونکہ 2018 میں مسلم لیگ ن کی حکومت نہ بن سکی۔

نئی آنے والی حکومت نے تین ارب روپے سے زائد تخمینے کے بعد دو سال میں یہ منصوبہ مکمل کیا جس پر افتتاح کی تختی ابھی تک کسی کے نام کی نہیں لگی۔ جبکہ سنگ بنیاد سابق وزیر اعلی پرویز الہی کے ہاتھ سے رکھنے جانے کی یاد گاری تختی نصب کر دی گئی ہے۔

نئی عمارت پر ہونے والے اخراجات سے متعلق اسمبلی سیکرٹریٹ کی جانب سے مالی تفصیلات کو خفیہ رکھا جا رہا ہے۔

اسمبلی کے سٹیٹ آفیسر عاصم چیمہ سے تفصیلات دینے کا کہا گیا تو انہوں نے معذرت کر لی جبکہ پبلک ریلیشن آفس سے بھی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔

عوامی نمائندوں کی رائے:

اراکین کی مراعات میں اضافے کا معاملہ ہو یا نئے ایوان پر خطیر رقم خرچ کر کے مکمل کرانے کا منصوبہ، حکومتی اور اپوزیشن کے بیشتر ارکان متفق دکھائی دیتے ہیں۔ البتہ بعض ن لیگی اراکین اس کو فضول خرچی سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے دور حکومت میں اس منصوبے کی بجائے عوامی مسائل کے منصوبوں کو ترجیح دی گئی تھی۔

پی ٹی آئی کی رکن اسمبلی سعدیہ سہیل نے کہا کہ پرانے ہال میں اراکین کو بیٹھنے کی تنگی تھی اس لیے یہ ایشا کا سب سے بڑا ایوان تعمیر کیا گیا۔ لیکن اس کی لاگت میں اضافہ اشیا کی قیمتوں میں دو سو فیصد اضافے کے باعث ہوا اگر ن لیگ دس سال تاخیر نہ کرتی تو لاگت تین ارب روپے کم ہوتی۔

مسلم لیگ ن کی رکن اسمبلی بشری انجم بٹ نے اس منصوبہ پر اخراجات کو غیر ضروری قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہم نےاپنے دور حکومت میں ایسے منصوبوں کے بجائے اورنج لائن ٹرین، انڈر پاسز یا سڑکوں جیسے منصوبوں کو ترجیح دی۔‘

جبکہ ن لیگ کے رکن پنجاب اسمبلی میاں نصیراحمد نے اس منصوبے کو وقت کی ضرورت اور جمہوریت کی مضبوطی کےلیے نا گزیر قرار دیا۔

پی ٹی آئی کی رکن پنجاب اسمبلی فرح آغا کے مطابق بھی اس ایوان کی ضرورت تھی۔ ان کے مطابق یہاں صوبے کی عوام کے لیے ہی قانون سازی اور ان کے مسائل حل کرنے کے منصوبوں کی منظوری دی جاتی ہے۔

واضح رہے لاہور میں گزشتہ تین سالوں کے دوران دو بڑے تعمیراتی منصوبے مکمل ہوئے ہیں۔ جن میں ایک فردوس مارکیٹ انڈر پاس جس پر ایک ارب روپے کے قریب لاگت آئی اور دوسرا پنجاب اسمبلی کی نئی عمارت مکمل ہوئی جس کل پانچ ارب روپے سے زائد کی لاگت آئی ہے۔

سابق ترجمان پنجاب حکومت مسرت جمشید کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’ہماری حکومت میں عوام کے لیے ضروری منصوبے مکمل بھی کیے گئے ہیں اور شروع بھی کیے گئے۔ فردوس مارکیٹ انڈرپاس بنایا گیا ہے جبکہ مزید بھی بنائے جائیں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے سابقہ حکومت کے منصوبے بھی نہیں روکے۔ اورنج لائن ٹرین منصوبہ مہنگا ہونے کے باوجود مکمل کیا۔ اسی طرح ارکان پنجاب اسمبلی کے لیے پرانی عمارت میں بیٹھنے کی جگہ بھی تعداد کے مطابق کم تھی اور تمام اراکین کا مطالبہ بھی تھا لہذا پنجاب اسمبلی کے نئے ایوان کی تعمیر بھی ہماری حکومت نے ہی مکمل کی ہے۔ پنجاب کے دوسرے شہروں میں بھی کئی منصوبے، سکول اور ہسپتالوں کی تعمیر ترجیحات میں شامل ہے۔ ہم نے یہ اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے تعمیر کیا ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’اس منصوبے کےمکمل اخراجات کا ریکارڈ موجود ہے جو کچھ عرصہ بعد آڈٹ رپورٹ میں شامل ہونے پر پبلک بھی کیا جا سکتا ہے۔‘

ان کے مطابق ’اسمبلی کی پرانی عمارت میں اسمبلی کے انتظامی دفاتر موجود رہیں گے اور اس کی دیکھ بھال بھی ہوتی رہے گی کیونکہ وہ قومی اثاثہ ہے اس طرح وہ بھی فعال رہے گی۔‘

مسرت جمشید کے بقول: حکومت نے عوام کے مسائل کو بھی مد نظر رکھا ہے اور صوبے میں بارہ نئے ہسپتال جبکہ پندرہ یونیورسٹیاں بنانے کا منصوبہ ہے۔ جن کے لیے رقم حالیہ بجٹ میں رکھی گئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی حوالے سے والٹن روڑ پر برگر کی ریڑھی لگانے والے محمد جمیل کا کہنا تھا کہ ’میں نے اپنی 55 سالہ زندگی میں کبھی نہیں دیکھا یا سنا کہ کوئی عوامی نمائندہ عوام کے لیے منتخب ہوا ہو یا کوئی عام آدمی وزیر مشیر بنا ہو۔ یہ امیروں کا کھیل ہے جن کے ہاتھ میں خزانہ ہے وہ اپنے لیے ہی سب استعمال کرتے ہیں۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں تو بھی میڈیا سے معلوم ہوا کہ پہلے والی اسمبلی چھوٹی پڑ گئی اور اربوں روپے سے نئی عمارت بنی ہے۔ ہم نے تو پرانی عمارت بھی مال روڑ سے گزرتے ہوئے ہی دیکھی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’غریب کی کون سوچتا ہے اب آسائشیں اور سہولیات امیر نمائندوں اور سرکاری افسران کے لیے ہیں بیٹھنے اور رہنے کے لیے محلات نما عمارتیں بڑی بڑی گاڑیاں اور نعرے لگائے جاتے غریبوں کے مسائل حل کرنے کے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی لیڈر کو عوام کی پروا الیکشن جیتنے تک ہوتی ہے۔ ‘

ان سے پوچھا گیا کہ عوام کے لیے قانون سازی اور ترقیاتی منصوبوں کی منظوری کے لیے ہی ایوان بنانا تو ضروری ہے پھر شکوہ کیوں؟

اس سوال پر جمیل نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا کہ ’کئی کئی گھنٹے گرمی سردی میں کھڑے ہو کر دو وقت بچوں کی روٹی پوری کرنا مسئلہ ہوتا ہے۔ بجلی، گیس، پانی کے بل بچوں کی فیسیں۔ ہر چیز نئے ٹیکسوں کے نام پر مہنگی ہوتی جارہی ہے اور بجٹ ہر سال خوف کی علامت بنا ہوا ہے کہ پتہ نہیں اب کتنی مہنگائی آئے گی۔ یہ پالیسیاں اور قانون سازی ہوتی ہے۔ ان اربوں سے تعمیر ایوانوں اور کروڑوں کے اخراجات سے تو انکا عام آدمی کو تو کوئی فائدہ نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان