سلوان میں عمارتیں مسمار کرنے پر فلسطینیوں اور پولیس میں جھڑپیں

بیت المقدس کے نائب میئر کے مطابق سلوان میں 20 عمارتیں مسمار کرنے کے نوٹس آ چکے ہیں جب کہ مزید 60 عمارتیں اسرائیلی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بنائی گئی ہیں۔ فلسطینیوں کا مؤقف ہے کہ تعمیرات کے لیے اجازت نامہ حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔

مظاہرین نے اسرائیلی حکام پر الزام لگایا ہے کہ وہ شہر میں عمارتوں کے لیے اجازت ناموں کے معاملے میں امتیاز سے کام لے رہے ہیں (فوٹو: روئٹرز)

اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس کے نواحی قصبے سلوان میں ایک دکان کو مسمار کردیا، جس کے بعد پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں۔

مظاہرین نے اسرائیلی حکام پر الزام لگایا ہے کہ وہ شہر میں عمارتوں کے لیے اجازت ناموں کے معاملے میں امتیاز سے کام لے رہے ہیں۔

فلسطینی شہری مستقبل کی ریاست کے لیے مشرقی بیت المقدس کی واپسی چاہتے ہیں، جس پر اسرائیل نے1967 میں قبضہ کرلیا تھا۔

اسرائیل پورے بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت سمجھتا ہے۔ یہ شہر کی وہ حیثیت ہے جسے عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اسرائیلی حکومت ان علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر کی حوصلہ کر رہی ہے، جہاں زیادہ تر فلسطینی آباد ہیں۔

مشرقی بیت المقدس کے مضافاتی قصبے سلوان میں پولیس کی سکیورٹی میں بلڈوزر نے حربی رجبی نامی قصاب کی دکان کو گرا دیا۔ یہ دکان ان آٹھ عمارتوں میں شامل ہے جنہیں مسمار کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ 1967 سے بھی پہلے سے وہاں رہائش پذیر ہیں۔ دوسری جانب اسرائیلی حکام نے اس جگہ کو پارک کے لیے مختص کر دیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ یہاں مکان اور دکانیں غیرقانونی طور پر تعمیر کیے گئے تھے۔

قصابوں کے کاروبار کے منتظم محمد باسط نے روئٹرز کو بتایا کہ ان کے خاندان کے 14 ارکان یہاں سے ہونے والی آمدن پر گزارا کرتے ہیں۔ محمد باسط کے بقول: 'ہمارے اپنے خاندانوں کی کفالت کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔' انہوں نے مزید کہا کہ انہیں نئے سرے سے کام تلاش کرنا ہوگا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب بیت المقدس کے نائب میئر آریے کنگ نے کہا ہے کہ سلوان میں تقریباً 20 عمارتوں کو مسمار کرنے کے نوٹس موصول ہو چکے ہیں۔ انہوں نے روئٹرز کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ مزید 60 کے لگ بھگ عمارتیں تعمیرات سے متعلق اسرائیلی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بنائی گئی ہیں۔

سلوان میں مقیم فلسطینیوں کا مؤقف ہے کہ تعمیرات کے لیے اجازت نامہ حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عمارتیں مسمار کرنے کا مقصد انہیں بیت المقدس سے نکالنا ہے، تاہم ان کے مؤقف پر اعتراض کرتے ہوئے نائب میئر کنگ کا کہنا ہے کہ بلدیہ نے سلوان میں فلسطینیوں کے سینکڑوں مکانوں کی تعمیر کی اجازت دے دی ہے۔

فلسطینی ڈاکٹروں کے مطابق شہر میں منگل کو ہونے والی جھڑپوں میں 13 لوگ زخمی ہوئے جبکہ اسرائیلی پولیس کے مطابق مظاہرین کے پتھراؤ سے دو افسر زخمی ہوئے اور ہنگامہ آرائی اور حملے کے الزام میں تین افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

نادر ابو دیاب جنہیں مسماری کا نوٹس مل چکا ہے، وہ بلدیہ کی طرف سے دروازے پر دستک کے خوف میں زندگی گزار رہے ہیں۔ 55 سالہ ابو دیاب نے بتایا: 'میرے پوتے پوتیاں مجھ سے سوال کرتے ہیں اور میں ان کا جواب نہیں دے سکتا۔ وہ بچے ہیں۔ میں انہیں کیا بتاؤں؟کیا وہ ہمارا گھر گرانے جارہے ہیں؟'

ان کے بھائی فخری ابو دیاب نے کہا کہ انہوں نے سلوان میں اپنے مکان میں توسیع کے لیے سات مرتبہ اسرائیلی پرمٹ کے لیے درخواست دی جسے ہمیشہ مسترد کر دیا گیا ۔انہوں نے مزید کہا کہ عمارتیں گرانے کی کارروائی جاری رہی تو 100 سے زیادہ فلسطینی بے گھر ہو جائیں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا