جب انگریزوں نے فی کس کشمیری کو تین روپے میں بیچ دیا

آج سے پونے دو سو سال قبل 25 لاکھ آبادی اور دو لاکھ 18 ہزار مربع کلومیٹر پر مبنی علاقہ فروخت کر دیا گیا، جس کی کسک آج بھی کشمیری محسوس کرتے ہیں۔

مہاراجہ گلاب سنگھ جو کشمیر خرید کر اس کی قسمت کے مالک بن گئے (پبلک ڈومین)

آج سے پونے دو سو سال قبل تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ پیش آیا جس کی کوئی اور مثال ملنا مشکل ہے۔ 1846 کو ایک ملک اپنی زمین، پہاڑوں، وادیوں، دریاؤں، چرندوں، پرندوں اور انسانی آبادی کے ساتھ بیچ دیا گیا۔

یہ ملک کشمیر تھا (اس زمانے میں یہ خطہ آزاد ملک کی حیثیت رکھتا تھا) اور اس بدنامِ زمانہ معاہدے کو ’بیعہ نامہ امرتسر‘ کہتے ہیں جس کے تحت 75 لاکھ روپے کے عوض انگریزوں نے کشمیر کی 25 لاکھ آبادی (تین روپیہ فی کس) اور دو لاکھ 18 ہزار مربع کلومیٹر رقبے کو جموں کے راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھ بیچ ڈالا۔ اسی واقعے کے بعد کشمیر پر ڈوگرہ راج قائم ہوا۔  

ایک تخمینے کے مطابق اس وقت کے 75 لاکھ نانک شاہی اس دور کے 55 ہزار برطانوی پاؤنڈ کے لگ بھگ تھے، جو آج کے ساڑھے چھ کروڑ پاؤنڈ بنتے ہیں۔ اگر اس رقم کو آج کے پاکستانی روپوں میں منتقل کیا جائے تو آج کے سوا 14 ارب پاکستانی روپوں کے برابر رقم بنتی ہے، گویا تقریباً 65 ہزار پاکستانی روپے فی مربع کلومیٹر کے نرخ سے پورے کشمیر کا سودا ہوا۔

اس معاہدے کے ٹھیک ایک سو سال بعد 1946 کو کشمیر کے قدآور سیاسی رہنما شیخ محمد عبداللہ نے برصغیر کی بدلتی صورت حال اور دوسری جنگ عظیم سے برطانیہ کے عالمی اقتدار پر پڑنے والے منفی اثرات کو بھانپتے ہوئے ’کشمیر چھوڑ دو‘ تحریک شروع کر دی۔

ہندوستان کی تحریک آزادی کے رہنماؤں سے ملاقاتوں کا سلسلہ تیز کر دیا نیز کشمیری عوام میں جوش و خروش پیدا کرنے کے لیے جلسے جلوسوں کا بڑے پیمانے پر اہتمام کرنا شروع کر دیا۔

ایک جلسہ سری نگر کے زیندار محلہ حبہ کدل میں منعقد کیا گیا جس میں شیخ عبداللہ نے ایک جوشیلی اور جذباتی تقریر کی جس کے نتیجے میں پورے کشمیر میں جوش اور ولولہ پیدا ہو گیا۔

تقریر میں انہوں نے کہا، ’ہم ایک ایک روپیہ اکٹھا کر لیں گے اور اس طرح سے 75 لاکھ روپے کی وہ رقم مہاراجہ ہری سنگھ کو واپس کریں گے جس کے عوض ان کے پردادا مہاراجہ گلاب سنگھ نے آج سے ٹھیک ایک سو سال پہلے کشمیر کو خرید لیا تھا۔‘

بہرکیف شیخ عبداللہ کو ایک ایک روپیہ جمع کرنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ جس طرح ایسٹ انڈیا کمپنی کو حالات کی مجبوری کے سبب ہندوستان سے جانا پڑا اسی طرح مہاراجہ ہری سنگھ بھی چلتے بنے۔ ایک ملک دو ممالک ہو گئے، دونوں آزادی کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن کشمیریوں کا وہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

معروف کشمیری مورخ اور شاعر ظریف احمد ظریف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بے شک سنہ 1947 میں پیدا ہونے والے حالات کے پیش نظر مہاراجہ ہری سنگھ کو راہ فرار اختیار کرنا پڑی لیکن وہ جاتے جاتے کشمیریوں کی غلامی کی زنجیروں کی کنجی بھارت کو تھما بیٹھے۔

'ڈوگرہ راج تو ختم ہوا، لیکن افسوس کہ ہم صدیوں پرانی غلامانہ زندگی سے اب بھی آزاد نہیں ہوئے ہیں۔ ہمیں بار بار غلام بنایا گیا یہاں تک کہ معمولی قیمت کے عوض خریدا گیا۔ ہمارے ذہنوں سے یہ بوجھ اترنا مشکل ہے۔ ہمارے اذہان اور قلم کبھی بھی غلامی سے آزاد نہیں ہوئے۔ موجودہ ظالمانہ اور جابرانہ دور میں تو ہم سب مشکوک زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔‘

گلاب سنگھ کشمیر کے مالک کیسے بنے؟

لداخ سے تعلق رکھنے والے نامور مورخ عبدالغنی شیخ کے مطابق گلاب سنگھ 17 اکتوبر 1792 کو جموں میں ایک غریب کسان گھرانے میں پیدا ہوئے اور سنہ 1810 میں وہ سکھ سلطنت کے بانی مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دربار میں بحیثیت ذاتی محافظ تعینات ہوئے۔

’1808 میں رنجیت سنگھ جموں کو اپنے زیر نگیں لے آئے تھے۔ 1819 میں ان کے جرنیل دیوان چند اور گلاب سنگھ نے کشمیر کے پٹھان گورنر جبار خان کو شکست دی اور کشمیر کو پنجاب کے ساتھ ضم کیا۔ رنجیت سنگھ اپنے جرنیل گلاب سنگھ کی فتوحات اور کارکردگی سے بہت متاثر تھے۔ اسی بنیاد پر انہوں نے سنہ 1822 میں گلاب سنگھ کو جموں جاگیر میں دیا اور راجہ کے خطاب سے نوازا۔

’سنہ 1829 کو رنجیت سنگھ کی ہدایت پر گلاب سنگھ نے کشتواڑ پر حملہ کیا اور راجہ محمد تیغ سنگھ کو شکست دی اور کشتواڑ کو جموں کے ساتھ ملایا۔ دراصل محمد تیغ سنگھ نے سنہ 1815 میں کابل کے مفرور بادشاہ شجاع الملک کو پناہ دی تھی جس پر رنجیت سنگھ ناراض تھے۔

’اگست 1834 میں رنجیت سنگھ کے ایما پر راجہ گلاب سنگھ کے جرنیل زورآور سنگھ نے لداخ پر دھاوا بولا جس کے لیے ایسٹ انڈیا کمپنی سے باقاعدہ اجازت لی گئی تھی۔ زورآور سنگھ نے لداخ کو جموں کے ساتھ ملایا اور یوں لداخ کی ایک ہزار سالہ خودمختار حکومت ختم ہوئی۔‘

عبدالغنی شیخ کے مطابق: ’سنہ 1839 میں زورآور سنگھ نے بلتستان پر فوج کشی کی اور اسے مغلوب کر کے جموں کا حصہ بنایا۔ اس کے دو سال بعد یعنی سنہ 1841 میں زورآور سنگھ نے تبت کو اپنے حملے کا نشانہ بنایا لیکن وہاں ڈوگرہ فوج کو سخت ہزیمت اٹھانی پڑی اور زورآور سنگھ مارا گیا۔ اس کے بعد گلاب سنگھ نے تبت پر حملہ کرنے کی ہمت نہیں کی۔

’ایسٹ انڈیا کمپنی پنجاب کو اپنی سلطنت کا حصہ بنانا چاہتی تھی لیکن مہاراجہ رنجیت سنگھ کے جیتے جی ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔ 27 جون 1839 کو رنجیت سنگھ فوت ہوئے۔ لیکن ان کی اولاد اور جانشین کمزور حکمران ثابت ہوئے۔

’دو جانشین کھڑک سنگھ اور نونہال سنگھ ایک سال کے اندر پراسرار طور فوت ہوئے۔ ان کے بعد شیر سنگھ تخت نشین ہوئے لیکن وہ خانہ جنگی کا شکار ہوئے اور چھوٹے بیٹے دلیپ سنگھ نے کمسنی میں تخت و تاج سنبھالا۔ 1845 میں انگریزوں اور سکھوں کے درمیان لڑائیوں میں سکھ ہار گئے اور پنجاب سکھوں کے ہاتھ سے نکلنے لگا۔‘

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے نوجوان کشمیری ریسرچ سکالر اور کالم نویس وارث الانور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سنہ 1809 کے ’معاہدہ امرتسر‘ یا ’ٹریٹی آف فرینڈشپ‘ کے تحت رنجیت سنگھ اور ایسٹ انڈیا کمپنی نے ایک دوسرے سے نہ الجھنے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن رنجیت سنگھ کے انتقال کے بعد سکھ سلطنت غیر مستحکم ہوئی اور تیزی سے زوال کی جانب گامزن ہو گئی۔ سکھ سلطنت کو سب سے بڑا دھچکہ 1845 اور 1846 میں لڑی جانے والی ’پہلی اینگلو سکھ جنگ‘ میں ہزیمت آمیز شکست سے لگا اور اسے معاہدہ لاہور کے تحت ایک بڑا حصہ سرنڈر کرنا پڑا۔

’جنگ میں ہار کے نتیجے میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے پنجاب پر قابض ہونے کی راہ ہموار ہو گئی۔ سنہ 1848 کی دوسری اینگلو سکھ جنگ میں انگریز پنجاب پر مکمل اختیار کے ساتھ قابض ہو گئے اور یوں پنجاب سے سکھ سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔‘

نوجوان کشمیری محقق ڈاکٹر سہیل الرحمان لون کہتے ہیں کہ ماضی میں جب دو ممالک کے درمیان جنگیں ہوتی تھیں تو جیتنے والے ملک کے اخراجات جنگ کا معاوضہ ہارنے والے ملک کو ادا کرنا پڑتا تھا۔

’سکھ سلطنت کو جنگ ہارنے پر نو مارچ 1846 کے معاہدہ لاہور کی رو سے انگریزوں کو ڈیڑھ کروڑ روپے ادا کرنے تھے۔ اس کے خزانے میں صرف 50 لاکھ روپے تھے۔ باقی ایک کروڑ روپے کے عوض اس نے دریائے بیاس اور دریائے سندھ کے درمیان آنے والے علاقے بشمول کشمیر اور ہزارہ کے صوبے سرنڈر کیے۔‘

گلاب سنگھ نے سکھ سلطنت اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے درمیان معاملات کو سلجھانے میں ثالث کا کردار ادا کیا لیکن پھر محض چھ دن بعد یعنی 16 مارچ 1846 کو ’معاہدہ امرتسر‘ کے تحت ایسٹ انڈیا کمپنی سے کشمیر سمیت وہ مختلف علاقہ جات خریدے جو چند دن پہلے سکھ سلطنت کا حصہ تھے۔

فی کشمیری تین روپے

معاہدہ امرتسر فریڈرک کیوری اور میجر ہنری مونٹگمری لارنس کے ذریعے ایسٹ انڈیا کمپنی کے اس وقت کے گورنر جنرل سر ہنری ہارڈنگ کے حکم سے برطانوی حکومت اور بہ نفس نفیس مہاراجہ گلاب سنگھ کے درمیان 16 مارچ 1846 کو طے ہوا اور سر ہنری ہارڈنگ کی مہر ثبت ہو کر منظور ہوا۔

معاہدے کی دفعہ نمبر ایک میں لکھا ہے: ’برطانوی حکومت تمام پہاڑی علاقہ مع اس کے ملحقات کے جو دریائے سندھ کے مشرق اور دریائے راوی کے مغرب میں واقع ہیں، بشمول چھمبہ بغیر لاہور، جو نو مارچ 1846 کے معاہدہ لاہور کی دفعہ 6 کی رو سے لاہور کی ریاست نے برطانوی حکومت کے حوالے کیے ہیں، مہاراجہ گلاب سنگھ اور ان کی اولاد نرینہ کے آزاد قبضے میں ہمیشہ کے لیے تبدیل کرتی ہے۔‘

معاہدہ امرتسر کی دفعہ نمبر تین میں لکھا ہے کہ مہاراجہ گلاب سنگھ اور ان کے وارثوں کے نام جو علاقہ جات منتقل کیے گئے ہیں ان کے معاوضے میں وہ برطانوی حکومت کو 75 لاکھ (نانک شاہی) روپے ادا کریں گے۔ 50 لاکھ روپے یکم اکتوبر 1846 کو یا اس سے قبل۔

ظریف احمد ظریف کہتے ہیں: ’ایک وقت وہ تھا جب گلاب سنگھ سکھ سلطنت کے بانی رنجیت سنگھ کے ایک چہیتے فوجی افسر تھے۔ انہیں رنجیت سنگھ نے کافی اختیارات دے رکھے تھے، لیکن چونکہ وہ ایک شاطر اور لالچی انسان تھا اس نے سکھ سلطنت کے خزانے کو آہستہ آہستہ لوٹ لیا تھا۔

’جموں اور دیگر کچھ علاقے پہلے سے ہی گلاب سنگھ کے پاس تھے اس کو دیکھتے ہوئے انگریزوں کو کشمیر اور دیگر علاقہ جات بھی ان کے سپرد کرنے میں زیادہ سوچ بچار نہیں کرنا پڑا۔

’کشمیر کو گلاب سنگھ کے سپرد کرنے کی قیمت 75 لاکھ (نانک شاہی) روپے مقرر ہوئی۔ اس وقت اس بدنصیب خطے کی آبادی 25 لاکھ کے آس پاس تھی۔ یعنی انگریزوں نے فی کس کشمیری کو تین (نانک شاہی) روپے میں فروخت کیا۔

’جس وقت یہ بدنام زمانہ سودا ہوا اس وقت ایک نانک شاہی روپے کی قدر ہندوستانی ایک روپے کی نسبت صرف 12 آنے تھی۔ ہندوستانی کرنسی میں حساب لگائیں تو کشمیر کو محض 56 لاکھ 25 ہزار روپے میں فروخت کیا گیا۔ معاہدہ امرتسر ایک مشروط معاہدہ تھا۔ معاہدے کی رو سے گلاب سنگھ کو ہر سال پشیمنہ کی 12 بکریاں (چھ نر اور چھ مادہ)، چھ عدد کشمیری پشمینہ شال اور ایک گھوڑا انگریزوں کو دینا پڑتا تھا۔‘

ظریف احمد ظریف نے بتایا کہ سکھ سلطنت کی طرح گلاب سنگھ کی تجوری بھی خالی تھی لیکن انہوں نے قرضہ اٹھا کر انگریزوں کو پہلی قسط ادا کی۔

’گلاب سنگھ نے پہلی قسط کی ادائیگی کی خاطر کچھ پیسے امرتسر کے تاجروں سے ادھار لیے۔ جب پیسوں کی واپسی کا وقت آیا تو گلاب سنگھ نے ان کو پیسے واپس کرنے کی بجائے مہاراج گنج سری نگر میں ایک مارکیٹ بنا کر دیا۔

’تاریخ کی چند کتابوں میں درج ہے کہ گلاب سنگھ نے پہلی قسط کی ادائیگی کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی سے پیسوں کی رسید مانگی۔ لیکن انگریزوں نے انہیں رسید نہیں دی۔ احتجاج کے طور پر گلاب سنگھ نے باقی 25 لاکھ روپے انگریزوں کو ادا نہیں کیے۔ اس طرح گلاب سنگھ کو کشمیر محض 50 لاکھ (نانک شاہی) روپے میں مل گیا۔‘

نامور کشمیری مورخ، محقق، نقاد اور مصنف محمد یوسف ٹینگ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ طاقتور افراد کی جانب سے ممالک اور خطوں پر بزور طاقت قابض ہونے کے قصوں سے تاریخ بھری پڑی ہے لیکن ایسے واقعات کا ذکر بہت کم ملتا ہے جب نہ صرف ایک ملک بلکہ اس میں رہنے والے لوگ، ان کا مال و متاع اور سب سے بڑھ کر ان کی عزت و ناموس کو چند لاکھ سکوں کے عوض بیچا گیا ہو۔ کشمیر کا سودا جس شخص سے کیا گیا وہ ایک لالچی اور ان پڑھ انسان تھا۔ وہ ایک روپے بھی نہیں چھوڑتا تھا۔‘

اے باد صبا اگر بہ جنیوا گزر کنی
حرفے زما بہ مجلس اقوام باز گوئی

دہقان و کشت و جُو و خیاباں فروختند
قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند

(اے باد صبا جنیوا کے شہر کی طرف جانا ہو تو مجلس اقوم سے میری طرف سے کہنا۔ کسان، کھیت، ندی اور باغ سب کو بیچ دیا گیا۔ ایک قوم کو بیچا گیا اور کتنے سستے داموں)

محمد یوسف ٹینگ نے شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے متذکرہ اشعار سناتے ہوئے کہا: ’علامہ اقبال کو اس بات کا بے حد افسوس تھا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے کشمیر کو بدنام زمانہ معاہدہ امرتسر کے تحت چند لاکھ نانک شاہی سکوں کے عوض گلاب سنگھ کو فروخت کیا۔

او کشتِ گُل و لالہ بہ بخشد بخرے چند

علامہ اقبال اس مصرعے میں کہتے ہیں کہ انگریزوں نے کشمیر کو چند خروں کے حوالے کر دیا۔ ان کا اشارہ گلاب سنگھ کی طرف ہے۔

محمد یوسف ٹینگ کے مطابق یہ علامہ اقبال ہی تھے جنہوں نے یہاں کے لوگوں کو ڈوگرہ راج کے خلاف اپنی آواز بلند کرنے کے لیے تیار کیا تھا۔

’آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے کشمیر کی آزادی کے لیے ہڑتال کی اپیل کی تھی۔ اس ہڑتال کی اپیل کا پوسٹر میرے پاس موجود ہے۔ اس اپیل پر پورے متحدہ ہندوستان میں ہڑتال کی گئی تھی۔ جب بھی یہاں سے کوئی لاہور جا کر علامہ اقبال سے ملاقات کرتا تھا تو وہ سب سے یہی کہتے تھے کہ کشمیر کی آزادی کے لیے اپنی جدوجہد ہر حال میں جاری رکھنا۔‘

مورخ اور شاعر ظریف احمد ظریف سے پوچھا کہ کیا علامہ اقبال کے علاوہ کسی دوسرے مقامی یا غیر مقامی شاعر نے بدنام زمانہ ’کشمیر کا سودا‘ پر قلم اٹھایا ہے تو ان کا کہنا تھا: ’جس طرح آج بات کرنے پر غداری کی لیبل چسپاں کی جاتی ہے اسی طرح ڈوگرہ شاہی حکومت میں بھی غداری کی سزا سنگین تھی۔ علامہ اقبال کے علاوہ کسی نے بھی اس ظلم پر کھل کر قلم نہیں اٹھایا ہے۔ اس وقت قلموں پر بھی نظر تھی لہٰذا کسی بھی کشمیری شاعر کے لیے اس پر کچھ لکھنا ممکن نہیں تھا۔

’علامہ اقبال قومی غیرت رکھنے والی شخصیت تھے۔ سب سے بڑھ کر چونکہ وہ نسلاً کشمیری تھے لہٰذا انہیں اپنے آبا و اجداد کے وطن کی بہت زیادہ فکر دامن گیر تھی۔‘

بھارت کے بابائے قوم مہاتما گاندھی نے جب جولائی – اگست 1947 میں کشمیر کا دورہ کیا تو انہوں نے معاہدہ امرتسر کو ’بکری پتر‘ کا نام دیا اور ڈوگرہ راج کے ’مظالم‘ پر شدید ناراضی ظاہر کی۔‘

شیخ محمد عبداللہ نے اپریل 1947 میں ہندوستان کے دورے پر آنے والے برطانوی حکومت کے ایک ’کابینہ مشن‘ کو ایک خط میں لکھا: ’ایک سو سال قبل ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایجنٹوں کے ہاتھوں کشمیر کا سودا ہوا۔ صرف 75 لاکھ نانک شاہی روپے کے عوض۔ کشمیر، اس کے عوام، اس کے سبزہ زار اور مرغزار اور اس قسم کے تمام وسائل سکھ سلطنت کے ایک باجگزار راجہ گلاب سنگھ کے ہاتھوں فروخت کر دیے گئے۔

’اس وقت کے کشمیر کے گورنر شیخ امام الدین نے اس معاہدے کے سلسلے میں کشمیر کا سودا کرنے کی مزاحمت کی لیکن اسے برطانوی فوج کی مدد سے مطیع بنا دیا گیا۔ اس طرح سے 1846 کے اس بکری پتر نے جس کو غلطی سے معاہدہ امرتسر کہا جاتا ہے، کشمیریوں کی قسمت پر مہر لگا دی۔ ہم اس بیعہ نامے کی اخلاقی اور سیاسی حیثیت کو چیلنج کرتے ہیں جس میں کشمیری عوام کبھی فریق نہیں رہے۔‘

وارث الانور کے مطابق کشمیر میں تعینات سکھ سلطنت کے گورنر شیخ امام الدین، جنہیں مقامی لوگ پسند کرتے تھے، نے گلاب سنگھ کی فوج سے جنگ کی لیکن انہیں کامیابی نہ مل سکی۔

’شیخ امام الدین کی مزاحمت کو انگریزوں کی مدد سے کچلا گیا۔ امام الدین کو کمزور کرنے کے لیے ان کے مشیروں اور ساتھیوں کو جاگیر اور دیگر مراعات کا لالچ دیا گیا۔‘

عام کشمیری اس بارے میں کیا سوچتے ہیں؟

انڈپینڈنٹ اردو نے جب محمد افضل نامی ایک عام کشمیری سے معاہدہ امرتسر کے بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا: ’بدنام زمانہ معاہدہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے استحصال کی آخری حد تھی اور راجہ گلاب سنگھ کے تنگ نظر اور فرقہ پرست حمکران ہونے کا بین ثبوت۔ کسی قوم کا اس کے اکابرین و معززین کی رائے جانے بغیر سودا کرنا ایک ایسی بربریت ہے جس کی مثال شاید ہی تاریخ اقوام عالم میں کہیں ملتی ہو۔ ہم وہ بدقسمت قوم ہے۔

’معاہدہ امرتسر کے تحت ہمیں انتہائی سستے داموں فروخت کر کے جہاں ہماری تذلیل کی گئی وہیں انسانی و اخلاقی اقدار کی بھی دھجیاں اڑا لی گئیں۔‘

خدمات کا صلہ یا مجبوری؟

مورخ عبدالغنی شیخ کے مطابق ایسٹ انڈیا کمپنی اور سکھ سلطنت کے درمیان ہونے والی ’پہلی اینگلو سکھ جنگ‘ کے دوران راجہ گلاب سنگھ نے انگریزوں کا ساتھ دیا جس کا اعتراف اس وقت کے گورنر جنرل سر ہنری ہارڈنگ نے 'خفیہ کمیٹی' کی رپورٹ میں کیا ہے۔

ڈاکٹر سہیل الرحمان لون کہتے ہیں: 'میں نے سکھ تاریخ کا مطالعہ کیا ہے۔ وہاں یہ لکھا ہے کہ گلاب سنگھ نے سکھ سلطنت کو دھوکہ دیا۔ بعض کتابوں میں انہیں غدار لکھا گیا ہے۔

’گلاب سنگھ نے سنہ 1845 اور 1846 کی جنگ میں حصہ نہیں لیا۔ وہ فوج کے ایک بڑے حصے کے سرپرست تھے۔ جب گلاب سنگھ اور ان کی فوج نے انگریزوں کے خلاف نہیں لڑا تو نتیجتاً سکھ ہار گئے۔‘

ڈاکٹر سہیل الرحمان لون اس دلیل کو خارج کرتے ہیں کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے گلاب سنگھ کو ان کی ’پرو برٹش سروسز‘ کے عوض کشمیر اور دیگر علاقہ جات دے دیے۔

'انگریز اتنے دیالو نہیں تھے کہ کسی کو خدمات کے عوض ایک بڑا خطہ دے دیتے۔ گلاب سنگھ کو کشمیر کا مالک بنانے کے معاشی اور جغرافیائی پہلو تھے۔

’انگریزوں کا خیال تھا کہ اس خطے پر راست حکومت کرنے سے بہت کم آمدن ہو گی۔ ان کا خیال تھا کہ اس خطے میں فوج کی تعیناتی اور حکومتی امور چلانے پر جتنے پیسے خرچ ہوں گے آمدنی اس سے کم آئے گی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کو اس خطے میں ایک طرف روس اور دوسری طرف افغانستان کا خطرہ درپیش تھا۔ اس کو دیکھتے ہوئے انگریزوں نے کشمیر کو ایک بفر سٹیٹ بنایا۔ یعنی اگر روس یا افغانستان سے حملہ ہوتا ہے تو پہلے ان کا ٹکراؤ کشمیر کی فوج سے ہو گا۔‘

ڈاکٹر سہیل الرحمان لون کے مطابق کشمیر واحد ایسی ’پرنسلی سٹیٹ‘ تھی جہاں ایسٹ انڈیا کا ریزیڈنٹ تعینات نہیں تھا۔

’ریزیڈنٹ محض ایک سفیر نہیں ہوتا تھا بلکہ ایک کنٹرولنگ اتھارٹی ہوتی تھی۔ یہ ریزیڈنٹ مختلف ریاستوں کے راجوں یا مہاراجوں کے کام کاج پر نظر رکھتے تھے۔ انگریزوں کا کشمیر میں ریزیڈنٹ تعینات نہ کرنے کا مقصد گلاب سنگھ کو یہ بتانا تھا کہ ہم آپ پر بہت زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔‘

عبدالغنی شیخ کہتے ہیں کہ 30 جون 1857 کو انتقال سے قبل مہاراجہ گلاب سنگھ نے اپنے بیٹے اور جانشین مہاراجہ رنبیر سنگھ کے لیے ایک پٹہ (ہدایت نامہ) لکھا جس میں ان سے کہا گیا تھا کہ 'یہ ریاست انگریز سرکار کا تحفہ ہے جو ہمیشہ کے لیے ہماری اولاد کی ملکیت ہے۔ اس لیے یہ تمہارا اولین فرض ہے کہ تم دل و دماغ سے ان کے وفادار رہو۔‘

وہ مزید کہتے ہیں: ’مہاراجہ رنبیر سنگھ کی تخت نشینی کے ایک سال بعد 1857 میں انگریزوں کے خلاف پہلی جنگ آزادی لڑی گئی جسے انگریزوں نے غدر کا نام دیا ہے۔

’رنبیر سنگھ نے انگریزوں کی مدد کے لیے تقریباً تین ہزار فوجی بھیجے جنہوں نے دلی کے محاصرے میں اہم کردار ادا کیا۔ بعد میں انگریز گورنر جنرل نے مہاراجہ کی خدمات کی سراہنا کی جبکہ ملکہ انگلستان نے تحفے بھیجے۔ انہیں ستارہ ہند کے اعزاز سے بھی نوازا گیا۔‘

ظلم و جبر کے نئے دور کا آغاز

ظریف احمد ظریف کے مطابق گلاب سنگھ جب تک تخت نشین رہے ان سے جتنا ہو سکا انہوں نے کشمیریوں پر ظلم کیا اور سختی کی۔

’جہاں بھی کہیں کوئی پیسہ نظر آیا اس کو اپنے سرکاری خزانے میں جمع کرایا۔ گلاب سنگھ کو پہلے سے ہی روپے اور مال و دولت سے بہت زیادہ لگاؤ تھا۔'

ڈاکٹر سہیل الرحمان لون کہتے ہیں کہ گلاب سنگھ نے سنہ 1848 میں ایک فرمان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ کشمیر کی پوری زمین ڈوگرہ خاندان کی ملکیت ہے۔

’گلاب سنگھ نے کاشتکاروں کو زمین استعمال کرنے سے نہیں روکا لیکن انہیں اتنا اناج سرکاری خزانے میں جمع کرنا پڑتا تھا کہ ان کے پاس زیادہ سے زیادہ 25 فیصد اناج بچتا تھا۔ کچھ کاشت کار اناج کو زمین کے نیچے دباتے تھے اور پھر جب انہیں اطمینان ہوتا کہ پکڑے نہیں جائیں گے تو نکال لیتے تھے۔‘

تاہم محمد یوسف ٹینگ کے مطابق سرکاری خزانے میں ایک بڑا حصہ جمع کرنے کے بعد ڈوگرہ حکومت کے اہلکار رہی سہی اناج لوٹ کر لے جاتے تھے۔

’اب اگر کسی کو ٹیکس سے مستثنیٰ زمین دی جاتی تو وہ مسلمان نہیں بلکہ ہندو ڈوگرہ یا کشمیری ہندو پنڈت ہوتے تھے۔ کشمیری پنڈت چونکہ پڑھے لکھے تھے وہ نہ صرف ڈوگرہ حکومت کے لیے کام کرتے تھے بلکہ مخبری کا فریضہ بھی انجام دیتے۔‘

وارث الانور کہتے ہیں: ’کشمیری ہندو پنڈتوں کا محکمہ مال اور دیگر محکموں پر کنٹرول تھا۔ یعنی پنڈت ویسے ہی ڈوگرہ حکومت کے قریبی رہے جیسے وہ آج ہیں۔

’گلاب سنگھ کے زمانے میں ہر ایک چیز اور ہر ایک تقریب پر ٹیکس لگتا تھا۔ مسلمانوں کی مذہبی آزادی سلب کر لی گئی تھی۔ اذان دینے پر پابندی تھی اور ذبح خانے بند کیے گئے تھے۔

’سکھ حکومت کے دوران مسلمانوں کی مذہبی مقامات کو نذرانے یا فنڈز دیے جاتے تھے لیکن گلاب سنگھ نے کشمیر کا مالک بننے کے ساتھ ایسی ہر ایک فنڈنگ روک دی۔ لیکن دوسری جانب وہ ہندوؤں کی مذہبی مقامات بالخصوص مندروں کی تعمیر کے لیے دل کھول کر پیسے دیتے رہے۔ ہندوؤں کی مذہبی مقامات سے وابستہ افراد کو مشاہرہ بھی دیا جاتا تھا۔

’آج ہم کہتے ہیں کہ آر ایس ایس بھارت کو ہندو سٹیٹ بنانا چاہتی ہے لیکن ڈوگرہ راج کے دوران کشمیر ایک ہندو سٹیٹ بنائی جا چکی تھی جس میں مسلمانوں کو کوئی مذہبی آزادی حاصل نہیں تھی۔

’گلاب سنگھ ایک شاطر حکمران تھا۔ لاہور یونیورسٹی بنانے کے لیے اگر کسی نے سب سے زیادہ پیسے دیے تو وہ گلاب سنگھ تھے۔ لیکن کشمیر میں کوئی تعلیمی ادارہ قائم نہیں کیا۔ لاہور یونیورسٹی کی دل کھول کر فنڈنگ کا مقصد بیرون کشمیر اپنی شبیہہ بہتر بنانا تھا۔‘

’انگریز کشمیر پر قبضہ کیوں نہیں کرتے؟‘

وارث الانور کے مطابق کشمیری مسلمان گلاب سنگھ سے اتنے تنگ آ چکے تھے کہ وہ کشمیر آنے والے برطانوی سیاحوں سے پوچھا کرتے تھے کہ آپ یہاں حکومت خود کیوں نہیں کرتے۔

'کئی انگریز سیاحوں نے لکھا ہے کہ جب وہ اور ان کے ساتھی کشمیر کے دیہات میں جاتے تھے تو وہاں کے مقامی لوگ ان سے استفسار کیا کرتے کہ آپ یہاں حکومت کیوں نہیں کرتے۔

’بے شک گلاب سنگھ نے کشمیر کو خریدا تھا لیکن اس کی حکومت ایسٹ انڈیا کی نگرانی میں ہی چلتی تھی۔ یہاں کے لوگ سمجھ رہے تھے کہ شاید انگریزوں نے گلاب سنگھ کو عارضی مدت کے لیے کشمیر کا ناظم بنایا ہے۔‘

محمد یوسف ٹینگ کہتے ہیں کہ ڈوگرہ خاندان کشمیریوں کو اپنے زرخرید غلام سمجھتے تھے۔ ’کشمیریوں کو بیگار یا جبری مزدوری پر بھیجا جاتا تھا اور اس کے عوض کوئی پیسہ بھی نہیں دیا جاتا تھا۔ اس جبری مزدوری کے دوران بہت سے لوگ مر جاتے تھے۔

دیہات میں بیگار پر لے جانے کے لیے لوگوں کی پریڈ کرائی جاتی تھی اور معمر افراد کو چھوڑ کر دیگر افراد بالخصوص نوجوانوں کو اس کے لیے منتخب کیا جاتا تھا۔‘ ڈاکٹر سہیل الرحمان لون کا کہنا ہے کہ جب کسی گاؤں میں بیگار پر لے جانے کے لیے لوگوں کی پریڈ کرائی جاتی تو وہاں ماتم برپا ہو جاتا تھا۔

’جیسے 1990 کی دہائی میں کریک ڈاؤنز کے دوران عورتیں مردوں کو بھارتی فوج سے بچانے کے لیے سامنے آتی تھیں اسی طرح ڈوگرہ راج میں بھی ہوتا تھا۔ جب یہاں سے 100 لوگوں کو بیگار کے لیے گلگت بھیجا جاتا تھا تو وہاں سے 90 ہی واپس آتے تھے۔ کشمیریوں کو گلگت اکثر خزاں کے موسم میں لے لیا جاتا تھا جہاں انہیں سرحدوں پر تعینات فوج کے لیے گولہ بارود اور غذائی اجناس اپنے کاندھوں پر لے جانا پڑتے تھے۔ بیگار پر لے جانے والوں کو بمشکل ہی کھانا اور کپڑے دیے جاتے تھے۔ کچھ کو راستے میں ہی بیچا جاتا تھا۔‘

ڈاکٹر محمد امین ملک اپنی کتاب ’تحریک حریت کشمیر میں نیشنل کانفرنس کا کردار‘ میں لکھتے ہیں کہ ہندو، سکھ، پیرزادے، گوجر اور وہ کاشتکار جو سرکاری اہلکاروں کو دی جانے والی رقوم پر کام کرتے تھے بیگار سے مستثنیٰ تھے۔

ظریف احمد ظریف کہتے ہیں کہ اگرچہ کشمیر میں ڈوگرہ شاہی حکومت کا خاتمہ 101 سال بعد سنہ 1947 میں ہوا لیکن ان کا نظام حکومت بشمول اسٹامپ اور قوانین سنہ 1949 تک نافذ العمل رہے۔

’رنبیر پینل کوڈ یا رنبیر ضابطہ تعزیرات کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے یعنی 2019 تک جاری رہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ