’کاری‘ کی جانے والی حسینہ نے موت کو کیسے شکست دی؟

سعید آباد تھانے کے تفتیشی افسر عطا محمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حسینہ کے دیوروں شیر خان انڑ اور شریف انڑ کو گرفتار کرلیا گیا ہے جبکہ باقی ملزمان کی گرفتاریاں بھی جلد عمل میں لائی جائیں گی۔

29 مارچ 2014  کو لی گئی اس تصویر میں اسلام آباد میں انسانی حقوق کے حوالے سے سرگرم کارکن غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں (اے ایف پی فائل )

صوبہ سندھ کے ضلع مٹیاری میں تحصیل سعیدآباد کے دیہی علاقے گوٹھ پیرانو اُنڑ کی رہائشی حسینہ نظام الدین انڑ کو ان کے پانچ دیوروں نے اپنی سمجھ کے مطابق غیرت کے نام پر قتل کر دیا تھا لیکن ان کی جان بچا لی گئی۔

حسینہ نظام الدین پر ان کے دیوروں نے سریے سے بدترین تشدد کیا تھا اور ان کو قریب المرگ حالت میں چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ ایک دیور نے حسینہ کے گھر والوں کو جاکر اطلاع دی کہ وہ اسے کاروکاری کے تحت قتل کر چکے ہیں۔

مگر ایک راہ گیر نے حسینہ کی مدد کے لیے سعیدآباد پولیس تھانے میں اطلاع دی جنہوں نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے حسینہ کی زندگی بچا لی۔

فی الحال حسینہ اپنے گھر والوں کے ساتھ ہیں لیکن ان کے سسرال والے انہیں دھمکیاں دے رہے ہیں کہ اگر انہوں نے اس معاملے پر قانونی کارروائی کی تو انہیں مار دیا جائے گا۔

27 جون کو سعید آباد تھانے میں پانچ افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی گئی ہے جس میں ارادہ قتل، اقدام قتل اور کاروکاری سے متعلق دفعات شامل کی گئی ہیں۔

ایف آئی آر حسینہ انڑ کی جانب سے درج کروائی گئی جن کی عمر 45 سال ہے۔ 19 سال قبل ان کی شادی انڑ برادری میں ہوئی جو کہ تحصیل سعید آباد کے گوٹھ پیرانو انڑ کی ایک بااثر برادری ہے۔ ان کے شوہر کا نام نظام الدین انڑ ہے اور ان کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔

ایڈیشنل آئی جی پی حیدر آباد ڈاکٹر جمیل احمد نے بھی اس حوالے سے ٹویٹ کی تھی جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’مٹیاری پولیس نے ایک خاتون کو بظاہر مردہ حالت میں بازیاب کیا ہے جن میں فوری طبی معائنے کے بعد زندگی کے آثار پائے گئے اور انہیں فوری طبی امداد  دے کر زندگی کی طرف لایا گیا۔‘

ایک اور ٹویٹ میں جمیل احمد نے لکھا کہ یہ خاتون غیرت کے نام پر قتل کا نشانہ بنی ہیں جس میں ان کے دو کزنز نے چھڑیوں کے وار کر کے انہیں زخمی کیا ہے۔ وہ دونوں فوری طور پر گرفتار کر لیے گئے ہیں اور ان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

سعید آباد تھانے کے تفتیشی افسر عطا محمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 24  تاریخ کو حسینہ اپنے شوہر کے رشتے داروں سے ملنے ضلع سانگھڑ کے شہر جھول گئیں تھیں۔ 26 تاریخ کی رات ان کے شوہر کے پانچ چھوٹے بھائی حسینہ سے بات کرنے کے بہانے اپنی گاڑی میں ان سے ملنے جھول آئے۔

انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ایف آئی آر کی نقل کے مطابق حسینہ نے بتایا کہ ’میرے شوہر کے پانچ چھوٹے بھائی شریف انڑ، شیر خان انڑ، یونس انڑ، محمود انڑ اور اصغر انڑ اپنی گاڑی میں مجھ سے ملنے آئے اور کہا کہ ہمیں آپ سے کچھ بات کرنی ہے آپ ہمارے ساتھ چلیں۔ پھر وہ اپنی گاڑی میں مجھے لے کر انڑ کی جانب روانہ ہو گئے۔‘

حسینہ نے ایف آئی آر میں کہا ہے کہ ’راستے بھر وہ باتیں کرتے رہے لیکن پھر ایک وقت آیا جب انہوں نے مجھ پر الزام لگایا کہ میرے جھول میں کسی سے ناجائز تعلقات ہیں۔ جب میں نے ان کی یہ باتیں سنیں تو میں نے چیخنا چلانا شروع کردیا۔ مگر انہوں نے میرے منہ پر زور سے ہاتھ رکھ دیا۔ پھر رات ساڑھے تین بجے کے قریب یہ لوگ مجھے گوٹھ پیرانو انڑ میں میرے ایک دیور شیر خان انڑ کے اتات (گیسٹ ہاؤس) پر لے آئے جہاں انہوں نے مجھے بتایا کہ مجھے کاروکاری کے تحت قتل کر دیا جائے گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حسینہ نے مزید بتایا کہ ’اتنے میں میرا دیور شریف انڑ جو مجھے اپنے ساتھ تعلقات رکھنے کے لیے مختلف بہانوں سے تنگ کرتا رہتا تھا سریا لے کر آیا۔ ایک سریا اس نے خود اٹھایا اور باقی دیگر کو دیے۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے زمین پر لٹایا اور میرا قتل کرنے کے ارادے سے انہوں نے سریے سے مجھ پر وار کرنے شروع کر دیے۔

انہوں نے ایف آئی آر میں لکھوایا کہ ’انہوں نے میری پیٹھ، کندھے، سر اور جسم کے باقی حصوں پر بہت مارا۔ شدید تکلیف کے باعث میری حالت مرنے والی ہوگئی اور میں بے ہوش ہوگئی۔ اس کے بعد مجھے بس اتنا یاد ہے کہ میں ایک چارپائی پر لیٹی ہوئی تھی اور سر سے پیر تک میرے پورے جسم پر ایک کپڑا پڑا ہوا تھا۔ میں نے اتنے میں دیکھا کہ ایک شخص اتات میں پانی پینے کے لیے آیا ہوا تھا۔‘

حسینہ نے بتایا کہ ’اس آدمی کو دیکھ کر میں نے اٹھنے کی کوشش کی مگر میرا جسم زخمی اور بے انتہا تکلیف میں تھا۔ میں نے گھبراتے ہوئے اس آدمی سے کہا کہ پولیس کو اطلاع دے دیں نہیں تو یہ مجھے مار دیں گے۔ یہ بات سن کر وہ وہاں سے چلا گیا۔ اس کے کچھ دیر کے بعد پولیس ایمبولینس کے ساتھ آئی اور مجھے تعلقہ ہسپتال سعید آباد لے گئی۔‘

ایف آئی آر کے مطابق وہاں کے ڈاکٹروں نے حسینہ کا فوری علاج کیا اور انہیں حیدر آباد کے ہسپتال کے لیے ریفر کیا اور پولیس نے ایمبولینس میں حسینہ کو حیدرآباد پہنچاکر گھر والوں کو اطلاع دی۔

تفتیشی افسر عطا محمد کے مطابق انہوں نے فوری طور ہر حسینہ کے بھائی شہزور اور پرویز سے رابطہ کیا۔ حسینہ نے اپنے بھائیوں کی موجودگی میں سعید آباد تھانے میں درخواست کی کہ شریف انڑ اور دیگر چار لوگوں کے خلاف انہیں قتل کرنے کا ارادہ کرنے، سریے سے مارنے اور جان لینے کے کیس میں شریف انڑ اور دیگر لوگوں کے خلاف کاروائی کی جائے۔

اس معاملے میں انڈپینڈنٹ اردو نے انڑ خاندان کا موقف لینے کے لیے ان سے متعدد بار رابطہ کیا مگر ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملا۔

تاہم حسینہ نظام الدین انڑ کی والدہ سے اس معاملے پر بات ہوئی۔

سیانی ملاح، 70 سالہ خاتون ہیں اور ضعیف ہونے کے باعث ان کی سماعت بے حد متاثر ہوچکی ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’حسینہ کے دیور نے ہمیں اطلاع دی تھی کہ ہم نے حسینہ کو کاری قرار دے کر اسے مار دیا ہے اور آپ اس معاملے پر خاموش رہنا ورنہ آپ کو بھی مار دیں گے۔‘

سیانی ملاح کا مزید کہنا تھا کہ ’کاروکاری میں تو بیوی اور شوہر دونوں کو ایک ساتھ جان سے مار دیتے ہیں لیکن حسینہ کا شوہر چھپا ہوا ہے۔ وہ کہاں ہے؟ وہ تو کہیں نظر نہیں آرہا۔ یہ لوگ میری بیٹی کو اٹھا کر لائے اور اسے زہر پلایا، اسے بے ہوش کیا، اسے گھونسے اور لاتیں ماریں اور پھر اس کو سریوں سے مارا ہے۔‘

’اس سب کے بعد حسینہ کے دیور نے ہمیں فون کر کے کہا کہ انہوں نے میری بیٹی کو مار دیا ہے۔ تم ابھی خاموش رہنا ورنہ تمہیں بھی مار دیں گے۔ حسینہ اس وقت ہسپتال میں ہے مگر یہ لوگ ابھی بھی ہمیں فون کرکے دھمکیاں دے رہے ہیں کہ اگر حسینہ ہسپتال سے ٹھیک ہو کر آ بھی گئی تو اسے مار دیں گے اور ہمیں بھی نہیں چھوڑیں گے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ یہ اب ہمارے ساتھ کیا کریں گے۔‘

سعید آباد تھانے کے تفتیشی افسر عطا محمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حسینہ کے دیوروں شیر خان انڑ اور شریف انڑ کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ باقی ملزمان کی گرفتاریاں بھی جلد عمل میں لائی جائیں گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان