چترال: 'غیرت کے نام' پر دہرا قتل، مقتولہ کے بھائی گرفتار

ڈی پی او کے مطابق رواں برس مئی میں پیش آنے والے اس واقعے میں ایک ملزم نے اپنے پڑوسی سے پرندوں کے شکار کے بہانے بندوق ادھار مانگی اور پھر اسی سے لڑکے اور لڑکی کو قتل کرکے لاشیں جنگل میں پھینک دی تھیں۔

پولیس کے مطابق لڑکے کی عمر 23 اور لڑکی کی عمر 18 سال تھی۔  (فائل تصویر: سوشل میڈیا)

ضلع چترال کے گاؤں لوٹ اویر (ژوڑیاں سور) میں مبینہ طور پر غیرت کے نام پر دہرے قتل کے کیس میں لڑکی کے کزن سمیت دو بھائیوں کو ٹھوس شواہد کی بنیاد پر گرفتار کر لیا گیا۔

ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) چترال ذوالفقار تنولی نے ملزمان کی گرفتاری کی تصدیق کی۔

یہ واقعہ رواں سال مئی کے مہینے میں پیش آیا تھا، جب ایک نوجوان لڑکے اور لڑکی کو قتل کرکے جنگل میں پھینک دیا گیا تھا اور اس دہرے قتل کو خودکشی کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی تھی۔

پولیس کے مطابق لڑکے کی عمر 23 اور لڑکی کی عمر 18 سال تھی۔ دونوں لاشوں کو پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد ورثا کے حوالے کیا گیا، جنہوں نے ان کی تدفین بھی کر دی تھی۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق لڑکے کو دو اور لڑکی کو ایک گولی لگی تھی جبکہ لاشوں کے پاس سے ایک روسی ساختہ بندوق اور ایک پستول بھی ملا تھا۔

سیاسی دباؤ اور اہل علاقہ کے عدم تعاون کی وجہ سے کیس میں پیچیدگیاں پیدا ہو رہی تھیں۔ دوسری جانب آٹھ جولائی 2020 کو نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کی طرف سے ڈی پی او اپر چترال کو اس کیس کے سلسلے میں ایکشن لینے کے لیے درخواست کی گئی تھی۔

ڈی پی او اپر چترال ذوالفقار تنولی کے مطابق لڑکی کے کزن سمیت دو بھائیوں کو دہرے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے اور یہ گرفتاریاں ٹھوس شواہد کی بنیاد پر ہوئی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید بتایا کہ شواہد میں مقتول لڑکے کے موبائل سے برآمد شدہ پیغامات اور قتل میں استعمال ہونے والے ہتھیار شامل ہیں جبکہ موقع سے برآمد شدہ ہتھیاروں کا فارنزک ٹیسٹ کیا گیا ہے جو کہ میچ کر گئے ہیں۔

 ڈی پی او نے بتایا کہ ایک ملزم نے پڑوسی سے پرندوں کے شکار کے بہانے بندوق ادھار مانگی اور پھر اسی سے لڑکے اور لڑکی کو قتل کر دیا تھا۔

ذرائع کے مطابق اس کیس میں اب مقتول لڑکے کے والد مدعی بن چکے ہیں اور انہوں نے ہی تینوں ملزمان کو نامزد کیا ہے۔

لڑکے کے والد کے مطابق وہ اپنے کھیتوں میں کام کر رہے تھےجب ان کو پتہ چلا کہ ایک لڑکے کو پکڑ کر کچھ لوگ مار رہے ہیں۔ بعد میں پتہ چلا وہ ان کا اپنا بیٹا ہے، لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی اور ان کے بیٹے کو قتل کیا جا چکا تھا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اس علاقے میں 2015 سے اب تک یہ ساتواں قتل کا کیس ہے۔ باقی سارے کیسز میں اہل علاقہ کے عدم تعاون اور ناکافی ثبوت کی بنا پر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان