امریکی آپریشنز کے سابقہ گڑھ بگرام بیس پر لٹیروں اور طالبان کی نظریں

امریکی صدر جو بائیڈن کے حکم پر بگرام اڈے سے امریکی جا چکے ہیں اور اب اس کا انتظام افغان فوج کے پاس ہے۔ تاہم اب اس میں موجود سامان کو کئی خطرات لاحق ہیں۔

امریکی اور نیٹو فوجیوں کے جانے کے بعد دو جولائی کو بگرام ایئر بیس کے باہر افغان فوجی تعینات (اے ایف پی)

افغانستان کا بگرام ایئربیس ہر لحاظ سے ایک سپربیس ہے جہاں جدید ترین آلات اور بہت سی تنصیبات موجود ہیں جو کئی سال کے عرصے میں ایک شہر کی شکل اختیار کر چکی ہیں اور اب ان کا انتظام افغان فوج کے پاس ہے۔

امریکی فوج نے گذشہ دو دہائیوں سے زیادہ عرصے میں اس فوجی اڈے کو اپنے گھر میں تبدیل کر دیا تھا۔ یہاں مواصلاتی نظام، مختلف سہولتیں، جدید ترین امریکی ٹیکنالوجی اور وہ سب کچھ موجود تھا جس کی ایک شہر کو ضرورت ہوتی ہے، دکانوں اور کیفے سے لے جیل اور سوئمنگ پولز تک۔

اڈے کا انتظام افغان فورسز کو منتقل ہوئے ایک دن بھی نہیں گزرا کہ ایسی اطلاعات آئی ہیں کہ اڈا خطرے میں ہے۔

دو دہائیوں سے افغانستان میں سب سے بڑے بگرام ایئربیس خالی کرنے کی خبروں کے بعد متعدد مقامی لوگوں اور منشیات کے عادی افراد اڈے کو لوٹنے کے لیے پہنچ گئے لیکن افغان سکیورٹی فورسز نے انہیں روک دیا۔

خبر رساں اداے اے ایف پی کے مطابق ایک افغان عہدے دار نے کہا ہے کہ امریکی فوج کے انخلا کے ساتھ ہی لٹیرے اور منشیات کے عادی افراد کو خبر ملی تو وہ طالبان کی جانب سے اڈے کے اثاثے لوٹے جانے سے بھی پہلے اس کے دروازوں پر پہنچ گئے۔

بگرام بیس کی حفاظت پر مامور افغان فوجی نے اے ایف پی کو بتایا: ’جب تک ہم یہاں ہیں ہم لوٹ مار کی اجازت نہیں دیں گے۔ہم اپنے ملک کی حفاظت اور اس کا دفاع کریں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکہ نے 11 ستمبر2001 کے حملوں کے بعد القاعدہ سے بدلہ لینے اور انتہاپسندوں اور ان کے اتحادیوں جیسا کہ طالبان، کو سزا دینے کے لیے افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ اس کے ابتدائی اقدامات میں دارالحکومت کے شمال میں 60 کلومیٹر دور بگرام کا کنٹرول حاصل کرنا تھا تاکہ اسے دہشت گرد گروپوں سے مقابلے کے لیے فوجی اور سکیورٹی کارروائیوں کا مرکز بنایا جا سکے۔

امریکہ کو 1950 کی دہائی سے بگرام کا علم ہے۔ اس نے1950 میں افغان اتحادیوں کے لیے بگرام ایئرپورٹ تعمیر کیا تھا تاکہ اسے سرد جنگ کے دنوں میں سابق سوویت یونین کے خلاف استعمال کیا جا سکے۔ لیکن تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔

سوویت یونین نے 1979 میں اڈے پر قبضہ کر لیا تاکہ اسے اپنی کارروائیوں کے لیے استعمال کر سکے۔1990  میں سرخ فوج کے انخلا کے ساتھ ہی بگرام کا ہوائی اڈا خانہ جنگی کا گڑھ بن گیا اور بالآخر طالبان کے قبضے میں آ گیا، تاہم امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اڈے پر بمباری کی اور طابان سے فوجی اڈوں کا کنٹرول واپس لے لیا جن میں بگرام بھی شامل تھا۔ 

کچھ سال پہلے تک بگرام میں ایک لاکھ سے زیادہ امریکی فوجی موجود تھے۔ امریکی صدور اور سینیئر افغان حکام بھی اڈے کا دورہ کر چکے ہیں۔

جو بائیڈن واحد امریکی صدر ہیں جنہوں نے 2001 کے بعد سے بگرام اڈا نہیں دیکھا۔زیادہ تر افغان جنگ اسی اڈے سے لڑی گئی۔ بائیڈن کے حکم پر دو جولائی تک تمام امریکی فوجی اڈے سے جا چکے ہیں اور اڈے کا انتظام افغان فوج کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

اب اڈے اور اس میں موجود سامان کو کئی خطرات لاحق ہیں۔ صرف طالبان ہی نہیں جنہوں نے اس پر نظریں جما رکھی ہیں۔

 

یہ تحریر پہلے انڈپینڈنٹ فارسی پر چھپی تھی۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا