وہ عورت جس کے پاؤں تلے زمین نہ سر پر چھت

بچی پیدا ہونے پر جو مبارک باد دینے آتے ہیں وہ بھی تعریف کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ ’بیٹیاں پرایا دھن ہیں، کل اس نے بھی پرائے گھر جانا ہے۔‘

عورتوں کے عالمی دن 2021 کے موقعے پر کراچی میں مظاہرہ (اے ایف پی)

میری مددگار (زرینہ) کے آنسو بہے جا رہے تھے۔ میں نے پوچھا، ’کیا ہوا، تمہارے گھر میں سب خیریت ہے؟‘

وہ جیسے اس سوال کے انتظار میں تھی۔ دھاڑیں مار مار کے رونا شروع ہو گئی۔ ’باجی میرے شوہر نے طلاق بھیج دی۔ مجھے ابھی میرے گھر سے فون آیا ہے۔ باجی میرے سر پر کوئی چھت نہیں رہی۔ میں بے ٹھکانہ ہو گئی۔ میں بھائیوں کے در پر تو ہمیشہ نہیں پڑی رہ سکتی۔‘

اس کے آنسوؤں سے بھرے چہرے پر اتنا دکھ تھا کہ میں اسے اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے جیسی کوئی منطق یا کوئی نصیحت بھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ میں خاموش ہو گئی تا کہ وہ اپنا دل ہلکا کر لے اور وہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد سسکیاں بھرنے لگتی۔ میں نے آرام کا مشورہ دیا لیکن وہ کام میں اپنا غم بھلانا چاہ رہی تھی۔ اس کے خاندان سے جتنی بار کسی کی کال آتی سب اسے چھت چھن جانے پر پرسہ دیتے اور وہ دوبارہ اپنے بے گھر ہونے کے دکھ پر رونے لگتی۔

اس سارے عرصے میں میرے ذہن میں بس ایک سوال گردش کر رہا تھا۔ کل تک یہ مجھے اپنے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم کے قصے سنا رہی تھی کہ شوہر نے کتنا برا سلوک روا رکھا۔ ایک دن پہلے ہی بتا رہی تھی کہ ’باجی میرے وال (بال) بڑے گھنے تھے۔ میرا میاں میرے بال پکڑ پکڑ کے مارتا تھا۔ دیکھیں میرے بال اب تھوڑے سے رہ گئے۔‘ اس کے ساتھ ہی وہ پراندے میں گندھی چوٹی بھی آگے کر کے دکھاتی۔ آج وہی زرینہ چھت چھن جانے کا ماتم کر رہی تھی۔

یہ کہانی صرف زرینہ کی نہیں، لاکھوں خواتین پاکستان میں ایک چھت اور ٹھکانے کی خواہش میں ایسی شادیوں سے بندھے رہنے پر مجبور ہیں، جہاں ان کی ذات کی دھجیاں اڑا دی جاتی ہیں اور ان کے پاس اپنی کوئی جائیداد یا گھر نہ ہونا ان عورتوں کی سب سے بڑی مجبوری بن جاتا ہے۔ 

کیا ماں باپ کے گھر سے زیادہ محفوظ ٹھکانہ کوئی ہو سکتا ہے؟ لیکن بدقسمتی سے ماں باپ کے گھر سے لڑکی کو پیدا ہوتے ہی بے دخل کر دیا جاتا ہے۔ بچی پیدا ہونے پر جو مبارکباد دینے آتے ہیں وہ بھی تعریف کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ ’بیٹیاں پرایا دھن ہیں، کل اس نے بھی پرائے گھر جانا ہے۔‘

یہ ایک ان کہا اصول ہے کہ باپ کا گھر کل بیٹے کا گھر بن جائے گا، لیکن اس گھر میں بیٹی کا کوئی حق نہیں رہے گا، اس لیے وہ خواتین جو پر تشدد شادیوں سے جان چھڑا لیتی ہیں وہ یا تو دارالامان جیسے اداروں میں بھٹکتی ہیں یا پھر اپنے والدین کے گھر بوجھ کی طرح زندگی کاٹنے لگتی ہیں۔

اسی طرح جو خواتین بیوہ ہو جاتی ہیں اور ان کے شوہر کی وراثت سے انہیں بے دخل کر دیا جاتا ہے وہ بھی واپس اپنے ماں باپ کے گھر کی طرف کسی حق کے ساتھ نہیں پلٹ سکتیں۔ اگر ان خواتین کے پاس اپنی کوئی جائیداد یا کوئی ذریعہ معاش ہو تو یہ اپنی زندگی کے مشکل فیصلے زیادہ پر اعتماد ہو کر کریں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہمارے معاشرے میں شادی سے جڑے تصورات میں عورت کے لے لیے سب سے بڑی کشش اپنی چھت ہے۔ شادی عورت کو چھت یا پناہ گاہ کی فراہمی کا واحد ذریعہ ہے۔ ان پڑھ عورت ہو یا پڑھی لکھی باشعور عورت، دونوں کو ہی اپنی چھت جیسی سہولت حاصل کرنے کے لیے شادی ہی واحد آپشن بتایا جاتا ہے۔ معاشرہ عورت کے لیے ان معاملات میں اتنی گہری لکیریں کھینچ چکا ہے کہ ان کو پاٹنا ممکن نہیں۔ بیٹیوں سے شدید محبت کرنے والے اور بیٹیوں کو سراسر بوجھ سمجھنے والے دونوں طرح کے والدین ہی بیٹی کو پرایا دھن سمجھتے ہیں۔

اس سے بے پناہ لاڈ کرنے والے اسے اعلیٰ تعلیم دلانے والے سب والدین ہی بیٹی کو کم عمری میں ہی تیار کرنے لگتے ہیں کہ ماں باپ کا گھر ہمیشہ کے لیے اس کا گھر نہیں ہے۔ اچھے برے حالات جو بھی ہوں کل اس نے ’اپنے‘ گھر جانا ہے۔ ماں باپ کے گھر کی ملکیت کے احساس سے لڑکی اس وقت محروم کر دی جاتی ہے جب اسے ابھی اس بات کا شعور بھی نہیں ہوتا۔ عورت کی تربیت میں یہ بات بھی ڈال دی جاتی ہے کہ باپ کا گھر بھائی کا گھر ہو جائے گا، اس پر صرف بھائی کا حق ہے۔

یہی وجہ ہے کہ خواتین کی اکثریت اپنے والدین کے ورثے سے محروم رہتی ہے۔ بھائی کو وہ ورثہ بڑے آرام سے بخش دیتی ہیں۔ جب بہن کو اس کسوٹی پر پرکھا جائے کہ اسے زمین جائیداد سے زیادہ لگاؤ ہے یا بھائی سے، تو وہ کیا کرے گی ؟ خاص کر ایسے سماج میں جہاں بچپن سے ہی بہنوں کا بھائیوں سے تحفظ اور غیرت جیسا جذباتی تعلق بنا کر بیٹوں کو ہر چیز میں ترجیح دی جاتی ہے۔ 

 شادی کے بعد بھی اکثر خواتین اپنے شوہروں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں اور اپنا گھر بناتی ہیں وہ گھر عموماً شوہر کے نام ہوتا ہے اور طلاق کی صورت میں عورت کو اس گھر میں سے کوئی حصہ نہیں ملتا۔ جب سگے ماں باپ اور سگے بھائی عورت کو اس کا حق وراثت نہیں دینا چاہتے تو بھلا شوہر سے اس بات پر لڑائی کرنا عورت افورڈ کر سکتی ہے؟

اسی لیے وہ خاموشی سے چھت کے احساس کو لے کر بیٹھی رہتی ہے جب تک کہ اسے کوئی اس چھت بے دخل نہ کرے۔ ایسی بہت سی خواتین یقیناً موجود ہیں جن کے شوہر انہیں یہ احساس تحفظ فراہم کرتے ہیں، لیکن ایسی خواتین کی بھی کمی نہیں جنہیں نہ باپ کا گھر ملتا ہے، نہ شوہر کا۔

ان خواتین کو تحفظ فراہم کرنا ریاست اور سماج دونوں کی ذمہ داری ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین