فرانس: اسلام مخالف پوسٹ کرنے والی خاتون کو دھمکی، 11 افراد کو سزا

یہ مقدمہ بڑے پیمانے پر عوامی توجہ کا سبب بن گیا کیونکہ اس کا تعلق ایسے موضوعات کے ساتھ ہے جن پر فرانس میں شدت کے ساتھ بحث کی جاتی ہے۔

سکول میں پڑھنے والی گم نام لڑکی میلا 2020 میں اسلام کے خلاف بات کرنے کے بعد سے فرانس میں تقسیم کا سبب بننے والی شخصیت بن گئیں ہیں(فوٹو: اے ایف پی)

فرانس کی ایک عدالت نے اسلام مخالف مواد پوسٹ کرنے والی نوجوان لڑکی کو آن لائن ہراساں کرنے پر 11 افراد کو سزا سنا دی ہے۔ یہ مقدمہ اظہار رائے کی آزادی اور مذاہب کی توہین کے حق پر زور وشور سے ہونے والی بحث کی وجہ بن گیا تھا۔

ہراساں کی جانے والی لڑکی کی شناخت میلا کے نام سے ہوئی ہے، جو زندگی کو لاحق خطرے کی وجہ سے سکول تبدیل کرنے اور پولیس کا تحفظ قبول کرنے پر مجبور ہو گئی تھیں۔

اس مقدمے کی سماعت کے دوران ٹرولنگ اور آن لائن بدسلوکی کو بھی عدالتی کارروائی کا حصہ بنایا گیا تھا۔

 وکیل کے مطابق فرانس کے دارالحکومت پیرس کی عدالت میں 13 افراد کے خلاف مقدمہ چلایا گیا، جن کا تعلق فرانس کے مختلف علاقوں سے ہے۔ ان لوگوں کی عمریں 18 سے 30 سال کے درمیان ہیں۔

ان افراد پر الزام تھا کہ انہوں نے میلا کو مبینہ طور پر ہراساں کیا، انہیں ایک لاکھ سے زیادہ بے ہودہ پیغامات بھیجے گئے جن میں قتل کی دھمکیاں بھی شامل ہیں۔

ان 11 افراد کو معطل سزا سنائی گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ انہیں اس وقت تک جیل میں بند نہیں کیا جائے گا جب تک انہیں دوسرے جرائم میں سزا نہیں سنائی جاتی۔ عدالت نے ان افراد کو ہرجانے کے طور پر 15 سو یورو (18 سو ڈالر) اور قانونی فیس کی مد میں ہزار یورو ادا کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔

پریذائیڈنگ مجسٹریٹ مشیل امبرت نے فیصلہ سناتے ہوئے بدھ کو کہا ہے کہ ’جب آپ کا سڑک پر کسی سے آمنا سامنا ہوتا ہے تو آپ ان کی بےعزتی نہیں کرتے۔ ان کا مذاق اڑاتے ہیں نہ انہیں دھمکیاں دیتے ہیں۔ جو کام آپ سڑک پر نہیں کرتے وہ آپ سوشل میڈیا پر بھی نہیں کرتے۔‘

واضح رہے کہ جن افراد پر مقدمہ چلایا گیا ان میں سے ایک نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر لکھا تھا کہ ’میلا اس قابل ہیں کہ آپ کا گلا کاٹ دیا جائے۔‘ دوسرے افراد نے انہیں جنسی حملے کی دھمکی دی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سکول میں پڑھنے والی لڑکی میلا 2020 میں اسلام کے خلاف بات کرنے کے بعد سے فرانس میں تقسیم کا سبب بننے والی شخصیت بن گئیں ہیں۔ ان کے حامیوں نے انہیں تقریر کی آزادی کے لیے لڑنے والی ’جرات مند‘ لڑکی سمجھا جبکہ ناقدین کے نزدیک وہ جان بوجھ کر اشتعال انگیزی اور اسلامو فوبیا کی مرتکب ہوئیں۔

18 سالہ میلا کا عدالت کے باہر صحافیوں سے بات چیت میں کہنا تھا کہ 'ہم جیت گئے ہیں اور آئندہ بھی جیتیں گے۔ میں چاہتی ہوں کہ ہم متاثرہ افراد کوآئندہ کبھی یہ محسوس نہ کرائیں کہ وہ قصور وار ہیں۔'

نفرت انگیز تقریر

یہ مقدمہ بڑے پیمانے پر عوامی توجہ کا سبب بن گیا کیونکہ اس کا تعلق ایسے موضوعات کے ساتھ ہے جن پر فرانس میں شدت کے ساتھ بحث کی جاتی ہے۔ ان معاملات میں آن لائن ہراسانی سے لے کر توہین مذہب اور مذہبی اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے شامل ہیں۔ اعلانیہ ہم جنس پرست میلا نے، جب ان کی عمر 16 سال تھی انسٹا گرام پر ایک ویڈیو شیئر کی تھی جو وائرل ہو گئی۔

اس ویڈیو میں انہوں نے ایک لڑکے کی جانب سے ذاتی نوعیت کے حملے کا جواب دیا تھا۔ میلا کے مطابق لڑکے نے مذہبی وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے ان کے جنسی میلان پر ان کی توہین کی تھی۔ جواب میں میلا نے مذہب مخالف ایسے جملے کہے جنہیں مسلمانوں کے لیے اشتعال انگیز سمجھا گیا۔ انہوں نے اسی سال نومبر میں دوسری ویڈیو بھی پوسٹ کی تھی۔

فرانس میں نفرت انگیز تقریر کے خلاف قانون سخت ہے۔ مذہب یا نسل کی بنیاد پر کسی بھی گروپ کے خلاف نفرت انگیزی جرم ہے لیکن یہ قانون لوگوں کو مذہبی عقائد پر تنقید یا ان کی توہین سے نہیں روکتا ہے۔

ذرائع ابلاغ اور سیاست میں بڑے پیمانے پر تبصروں کے ماحول میں فرانس کے صدر ایمانوئل میکروں نے میلا کا دفاع کیا اور کہا کہ 'قانون واضح ہے۔ ہمیں مذاہب پر تنقید اور ان کے خاکے بنانے کا حق ہے۔'

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ