ہر گزرتے دن کے ساتھ افغانستان کی خواتین اپنے مستقبل کے حوالے سے پرامید دکھائی نہیں دیتیں۔ وہ فکر مند ہیں کہ کیا وہ افغانستان میں ایک محفوظ اور پرامن زندگی گزار سکیں گی؟ ایک ایسی جگہ جہاں وہ صحت، تعلیم اور روزگار کے حق سے محروم نہ ہوں اور دوسرے شہریوں کی طرح خوشحال زندگی جی سکیں۔
تاریخ شاہد ہے کہ پچھلی چند دہایئوں میں ان گنت مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود افغانستان کی خواتین نے کئی شعبوں میں اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا۔ تاہم اب بار بار یہی سوال اٹھتا ہے کہ کیا مستقبل میں وہ اپنی زندگی اور کام کو اسی نہج پر جاری رکھ سکیں گی یا ہمیشہ کی طرح مستقبل کے افغانستان میں بھی خواتین کی رائے اور ان کے حقوق کو کوئی اہمیت نہیں دی جائے گی۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات سے تو افغان خواتین کو بہت مایوسی ہوئی ہے کیونکہ ان کے حقوق کے حوالے سے امریکہ کی طرف سے بھی سردمہری برتی گئی بلکہ یہ کہنا حق بجانب ہوگا کہ امریکہ نے افغانستان کی خواتین کو مکمل نظر انداز کیا۔
یہ بات سب خوب جانتے ہیں کہ اگر امریکہ مذاکرات کے دوران خواتین کے ایجنڈے کو اہمیت دیتا تو شاید یہ معاملہ اس قدر مایوس کن نہ ہوتا۔ امریکہ کی طرح اکثریتی ممالک کی سول سوسائٹی نے افغان خواتین کی امن مذاکرات اور ترقی کے عمل میں شرکت کے لیے مختف سطحوں پر آواز اٹھائی لیکن حکومتی سطح پر خواتین کی رائے اور ان کی شرکت کے موضوع کو اب تک کوئی خاص اہمیت نہیں دی جا رہی بلکہ ایک طرح سے نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں یہ خواتین کس سے امید لگائیں؟
افغان خواتین نے ہر فورم پر اپنی آواز بلند کرنے کی کوشش کی لیکن آج تک نہ ہی ان کو سنجیدگی سے سنا گیا اور نہ ہی ان کی رائے کو کوئی اہمیت دی گئی۔ اسی لیے شاید بعض افغان خواتین نے بھی اب اسلحے کا سہارا لے لیا ہے۔ حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر ایسی کئی تصاویر گردش کر رہی ہیں جہاں افغانستان کے مرکزی اور شمالی علاقوں میں بعض خواتین بندوقیں لیے کثیر تعداد میں سڑکوں پر جلوس نکال رہی ہیں اور طالبان کے خلاف نعرہ بازی کر رہی ہیں۔
افغان صوبے غور میں مسلح خواتین نے بار بار کہا کہ وہ بندوق نہیں اٹھانا چاہتی تھیں لیکن ان کے پاس یہی ایک راستہ رہ گیا تھا۔ امن کی اہمیت خواتین سے زیادہ بہتر کون جانتا ہے۔
ان میں اکثر خواتین وہ ہیں جنہوں نے اپنے پیارے کھوئے ہیں یا کسی نہ کسی طرح سے ظلم و زیادتی کا شکار ہوئی ہیں اور شدید غم و غصے میں مبتلا ہیں۔
طالبان جس تیزی سے ملک بھر میں اپنا دائرہ کار اور کنٹرول بظاہر بڑھا رہے ہیں اس نے اکثر افغانوں کو خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس وقت بین الاقوامی میڈیا اور مختلف سماجی رابطوں کے آن لائن فورمز پر خواتین کے اسلحہ اٹھانے کے موضوع پر بات ہو رہی ہے۔ کچھ لوگ اس کو بہادری اور جرات سے تشبہہ دے رہیں ہیں اور ایک طرح اس بات کی حوصلہ افزائی کر رہیں ہیں کہ بالا آخر خواتین نے اسلحہ اٹھا ہی لیا اور شاید اب ان کو اپنے حقوق مل جائیں گے۔
وہیں پر بہت سارے افغان اور بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کے اکثر ورکرز نے اس اقدام کو خواتین کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین میں ملٹرائزیشن کی سوچ کو فروغ دینا یا اس کی حوصلہ افزائی کرنا ان کی زندگیوں کو مزید خطرات سے ہمکنار کر سکتا ہے۔ اکثریت کو خدشہ ہے کہ مخالفین کو خواتین کو نشانہ بنانے اور ان کے حقوق غصب کرنے کا بہانہ مل جائے گا۔
چار دہایئوں پر محیط جنگ نےافغانستان میں آج تک جس طرح سے ملٹرائزیشن کو فروغ دیا ہے اس کے تباہ کن اثرات اس وقت پوری دنیا کے سامنے ہیں۔ اب خواتین میں اس متشدد سوچ کا فروغ یقینا ایک اور تباہی کا عندیہ دے رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پدرشاہی کے معاشرے کے اکثر مردوں کے لیے یہ بات باعث شرم ہوگی کہ اس کی موت کسی خاتون کے ہاتھ ہو۔ لہذا خواتین کا مسلح ہونا بہت لوگوں کو گوارا نہیں ہوگا۔ لیکن کیا خواتین کے اس فیصلے کے بعد ان کو کوئی زیادہ اہمیت دی جائے گی یا بدلے میں مزید متشدد رویہ اپنایا جائے گا؟
افغانستان میں خواتین کے اسلحہ اٹھانے اور طالبان سے لڑنے کے واقعات تاریخ کا حصہ ہیں۔ چند گنے چنے ناموں میں قمر گل، بی بی عائشہ حبیبی اور سیلمہ مزاری شامل ہیں۔
یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ طالبان جہاں جہاں اپنا کنٹرول سنبھال رہے ہیں وہاں پر خواتین کی تعلیم اور نقل و حرکت پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔ یہی اقدامات خواتین کو خوف میں مبتلا کر رہے ہیں۔
ایک حالیہ سروے کے مطابق افغانستان کے دیہی علاقوں کی خواتین بھی تعلیم اور روزگار کا نہ صرف دیرینہ شوق رکھتی ہیں بلکہ ان کے بغیر ترقی کے عمل میں اپنی شرکت کے حوالے سے تشویش رکھتی ہیں۔ اسی لیے وہ مختلف فورمز پر اپنے خدشات کا اظہار کرتی آ رہی ہیں کہ اگر ان کو طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑا دیا گیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نہ ہی ان کو تعلیم کی اجازت ہوگی، نہ روزگار کی اور نہ سماجی و سیاسی ترقی کے عمل میں شرکت کی۔
مقامی مردوں کی اکثریت نے اس کی حمایت کی، کیونکہ پدرشاہی رویے کی جڑیں آج بھی ہمارے ہاں بہت گہری ہیں۔ لہذا جب بات خواتین کے حقوق کو غصب کرنے کی ہوتی ہے تو مقامی سطح پر لوگ کوئی خاطر خواہ ردعمل نہیں دکھاتے بلکہ قیام امن کے بہانے خواتین کے حقوق کو خاموشی سے نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ اس کے پیچھے ساری سوچ یہی کارفرما ہوتی ہے کہ کوئی بات نہیں کسی نے تو امن کی خاطر قربانی دینی تھی۔
کیا افغان حکومت سے یہ امید لگائی جاسکتی ہے کہ وہ آنے والے وقتوں میں طالبان کے ساتھ اپنے معاہدوں اور مذاکرات میں خواتین کے امور پر موثر طریقے سے بات کرسکیں گے اور یہ ممکن بنا سکیں گے کہ خواتین کو نہ صرف مکمل تحفظ حاصل ہو بلکہ ان کی تعلیم، روزگار اور نقل و حرکت پر کسی قسم کی کوئی پابندی عائد نہ ہو۔
کیا یہ ممکن ہے یا افغان خواتین کا مستقبل واقعی تاریک ہے؟ امید ہے کہ افغان خواتین کی شنوائی ہوگی اور انہیں اسلحہ اٹھانے پر مجبور نہیں ہونا پڑے گا؟