شاذ و نادر نظر آنے والے شیشہ نما آکٹوپس کے نایاب مناظر

سمندر میں تحقیق کرنے والے سائنس دان ایک ایسے آکٹوپس کی ویڈیو بنانے میں کامیاب ہوگئے جو شیشے جیشا شفاف ہے اور کم ہی نظر آتا ہے۔

آکٹوپس کی بہت کم فلمیں بنائی گئی ہے اگرچہ سائنسدانوں کو ایک سو سال سے اس کے وجود کا علم ہے (شمٹ اوشیئن انسٹی ٹیوٹ)

بحر الکاہل میں سمندری پہاڑی چوٹیوں پر تحقیق کرنے والے بحری سائنسدانوں نے ایک شیشہ نما آکٹوپس کی تصویریں بنائی ہیں جس کی کھال بالکل شیشے کی طرح شفاف ہے۔

ان تصاویر نے مشکل سے نظر آنے والی سمندری مخلوق کی نادر جھلک دیکھنے کا موقع فراہم کیا ہے۔

یہ آکٹوپس وٹریلیڈونیلا ریکارڈی (Vitreledonella richardi) کہلاتا ہے۔ اس کے محض نظر کے اعصاب، آنکھوں کے ڈھیلے اور نظام ہضم کی نالی دکھائی دیتی ہے۔ آکٹوپس کی بہت کم ویڈیوز بنائی گئی ہیں اگرچہ سائنسدانوں کو ایک سو سال سے اس کے وجود کا علم ہے۔

براہ راست بنائی فوٹیج کم ہونے کی وجہ سے سائنسدانوں کو شکاری جانوروں کی آنتوں میں موجود اس جانور کے نمونوں کے تجزیے سے ہی اس کا مطالعہ کرنا پڑا۔

سمندر میں تحقیق کرنے والے گروپ شمٹ اوشن انسٹی ٹیوٹ کے تحقیقی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والے بحری جہاز پر موجود سائنسدانوں نے فینکس آئی لینڈز مجمع الجزائر کے قریب اپنی تحقیق مہم کے دوران دو مرتبہ آکٹوپس کی تصاویر بنائی ہیں۔

محققین کو سمندر کی تہہ میں 30ہزار مربع کلومیٹر کے علاقے کے انتہائی صاف نقشے کی تیاری اور پہاڑی چوٹیوں کی ویڈیو کی تحقیقی ویڈیو بنانے میں 34 دن لگے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شمٹ اوشن انسٹی ٹیوٹ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر جیوتیکا ورمانی نے ایک بیان میں کہا: ’سائنسدانوں اور مقامی ری سرچرز کے ساتھ مل کر کام کرنے کی بدولت یہ مہم سائنس کی سرحدوں اور تحقیق کے کام کی واضح مثال ہے جس کی ہم معاونت کر رہے ہیں۔ سمندر میں اترنے کی لائیوسٹریمنگ کی بدولت ہمیں کبھی کبھار دکھائی دینے والی مخلوقات کی جھلک دیکھنے کا موقع ملتا ہے جیسا کہ شیشے کی طرح شفاف آکٹوپس۔ اپنے سمندر کو مزید سمجھنے کے لیے اس پلیٹ فارم کی فراہمی کے ذریعے ہم تخیل کو تحریک دیتے ہیں جبکہ سائنسی تحقیق کو آگے بڑھاتے اور اپنے زیر آب دنیا کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔‘

تحقیقی ٹیم کے زیر آب کام کرنے والے روبوٹ جس کا نام سوباسٹیئن ہے ، اس نے بھی ایک نادر وہیل شارک کی پہلی بار فوٹیج بنائی جس کے بارے میں خیال کیا جا تا ہے کہ اس کی لمبائی 40 فٹ سے زیادہ ہے۔

سائنسدانوں نے 21 بار  سمندر میں اترنے کے دوران خلاف معمول سمندری رویے کا مشاہدہ کیا جیسا کہ کیکڑے ایک دوسرے کیکڑے کی مچھلی چوری کرتے ہوئے۔

تحقیق کے لیے ری سرچرز نے مجموعی طور پر 182 سے زیادہ گھنٹے تک سمندر کی تہہ پر رہے۔

شمٹ اوشن انسٹی ٹیوٹ کی شریک بانی وینڈی شمٹ نے اس تحقیق پر تبصرے میں کہا: ’سمندر میں وہ حیرت انگیز باتیں اور توقعات چھپی ہوئی ہیں جن کا ابھی ہم نے تصور بھی نہیں کیا۔ ان میں سے بہت کم حقائق دریافت کیے گئے ہیں۔ اس طرح کی مہمات ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ ہمیں ہر جگہ سمندری زندگی کے نظام کی بحالی اور اس کے اس ایک دوسرے اور ماحول پر اثرات کو بہتر انداز میں سمجھنے کے لیے کوششوں میں تیزی لانے کی کیوں ضرورت ہے۔ اس کی لیے ضرورت اس لیے ہے کہ زندگی کا عظیم سلسلہ جو سمندر سے شروع ہوتا ہے وہ انسانی صحت اور فلاح و بہبود کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات