سی پیک اجلاس موخر ہونے کے بعد وزیراعظم کا چینی ہم منصب کو فون

’اجلاس کا موخر ہونا شاید چین کی جانب سے ایک اشارہ ہے کہ ان کے شہریوں کو پاکستان میں تحفظ فراہم کیا جائے، چین نے اس طرح داسو واقعے اور تحقیقات پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔‘

وزیراعظم عمران خان اور ان کے چینی ہم منصب لی کی چیانگ کے درمیان جمعے کو ٹیلی فونک رابطہ ہوا، جس میں عمران خان نے داسو کے قریب واقعے میں چینی شہریوں کی ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا (تصویر:  اے ایف پی)

وزیراعظم عمران خان نے بیجنگ کو داسو بم دھماکے میں چینی باشندوں کی ہلاکتوں کے سلسلے میں تحقیقات میں تمام کوششیں بروئے کار لانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔  

یاد رہے کہ بدھ کو صوبہ خیبر پختون خوا کے ضلع کوہستان میں داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ پر کام کرنے والے چینی ورکرز کی ایک بس میں دھماکہ ہوا تھا، جس کے نتیجے میں نو چینی شہری اور تین پاکستانی ہلاک ہوئے تھے۔ 

پاکستان کے سرکاری ریڈیو چینل پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن (پی سی بی) کے مطابق: ’وزیراعظم عمران خان اور ان کے چینی ہم منصب لی کی چیانگ کے درمیان جمعے کو ٹیلی فونک رابطہ ہوا، جس میں عمران خان نے چینی وزیر اعظم سے داسو کے قریب افسوس ناک واقعے میں چینی شہریوں کی ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار بھی کیا۔‘

ذرائع کے مطابق داسو بس دھماکے کے بعد اسلام آباد اور بیجنگ کے درمیان یہ اعلیٰ حکومتی سطح پر پہلا رابطہ ہے، جس میں چین کو واقعے کی تحقیقات میں تمام کوششیں اور وسائل بروئے کار لانے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔

اسلام آباد میں سینئیر حکومتی اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ چین کی جانب سے سی پیک کوآرڈینیشن کونسل کا دسواں اجلاس موخر کیے جانے کے بعد اعلیٰ سطح پر رابطہ ضروری ہو گیا تھا۔

چیئرمین سی پیک اتھارٹی لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باوجوہ نے جمعرات کو ایک ٹویٹ کے ذریعے اطلاع دی تھی کہ سی پیک کی دسویں جے سی سی کا اجلاس جو 16 جولائی کو ہونا تھا جسے عید کے بعد تک کے لیے موخر کر دیا گیا ہے۔

سی پیک کی جے سی سی کے ورچوئل اجلاس کی صدارت پاکستانی کے وفاقی وزیر اسد عمر نے کرنا تھی جبکہ اس میں پاکستان ریلویز کے منصوبے ایم ایل ون کے علاوہ کئی دوسرے پروجیکٹس پر گفتگو ہونا تھی۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر سینیئر حکومتی اہلکار نے بتایا کہ ’اسلام آباد میں چین کی جانب سے جے سی سی کا اجلاس موخر کیے جانے کو داسو بم دھماکے کے تناظر میں ہی دیکھا جا رہا ہے۔

’یہ شاید چین کی جانب سے ایک اشارہ ہے کہ ان کے شہریوں کو پاکستان میں تحفظ فراہم کیا جائے، چین نے اس طرح داسو واقعے اور تحقیقات پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔‘

حکومتی اہلکار کا کہنا تھا کہ واقعے کے فورا بعد بعض پاکستانی حکام نے جلد بازی میں ایسے بیانات دیے جن سے داسو واقعے کو حادثہ قرار دیے جانے کا تاثر ملتا تھا۔

ان کے خیال میں یہ بیانات بیجنگ میں یقیناً بے چینی کا باعث بنے ہوں گے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اعلیٰ حکومتی سطح پر رابطے کے بعد صورت حال میں بہتری آئے گی۔ ’دونوں وزرائے اعظم کے درمیان براہ راست گفتگو سے معاملات کافی حد تک ٹھیک ہو جائیں گے کیونکہ اس سطح پر یقین دہانیوں اور وعدوں کو اہمیت دی جاتی ہے۔‘

حکومتی اہلکار کا کہنا تھا: ’وزیر اعظم عمران خان کی تحقیقات کے سلسلے میں یقین دہانی کے بعد بیجنگ میں اطمینان کی لہر دوڑ گئی ہوگی، اور وہ (چین) اس یقین دہانی پر زیادہ یقین کریں گے۔‘

یاد رہے کہ داسو واقعے کے بعد پاکستانی دفتر خارجہ نے اسے بس میں تیکنیکی خرابی کے باعث گیس لیک کی وجہ سے حادثہ قرار دیا تھا جبکہ چینی دفتر خارجہ کے ایک بیان میں اسے ’بم دھماکا‘ کہتے ہوئے تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

چینی وزارت خارجہ کی ویب سائٹ پر جمعرات کو جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ ’پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ابتدائی تحقیقات سے لگتا ہے کہ یہ ایک حادثہ تھا جس میں دہشت گردی کے کوئی شواہد نہیں ملے۔ انہوں نے اپنی حکومت اور عوام کی جانب سے چینی شہریوں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چین اور پاکستان ایک دوسرے کے اہم ترین اور قابل اعتماد دوست ہیں اور چین کا نقصان پاکستان کا نقصان ہے۔‘

بیان کے مطابق چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ دھماکے کی تحقیقات کرے۔ تاہم انہوں نے اس واقعے کو ’حملہ‘ قرار دینے سے گریز کیا۔

بدھ کو دوشنبے میں ایک ملاقات کے بعد چینی وزارت کے بیان کے مطابق وانگ نے اپنے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی کو بتایا کہ اگر واقعتاً یہ ایک ’دہشت گرد حملہ‘ تھا تو پاکستان کو فوری طور پر ملزمان کو گرفتار کرنا اور انہیں سخت سزا دینی چاہیے۔

جمعرات کو چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لی جیان نے اعلان کیا کہ بیجنگ داسو واقعے کے بعد کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے اپنی ایک مختلف محکموں کے اہلکاروں پر مشتمل ٹیم پاکستان بھیج رہا ہے۔

انہوں نے کہا تھا: ’کیا ہوا اس کا پتہ لگانے، سیکیورٹی کے خطرات کا گہرائی سے جائزہ لینے، اور چینی اہلکاروں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے کوششوں میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چینی دفتر خارجہ کے اس بیان کے فوراً بعد پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا تھا کہ تحقیقاتی ٹیم کو جائے وقوع سے ایسے شواہد ملے ہیں جن کے باعث واقعے میں دہشت گردی کے عنصر کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔

پاکستان نے داسو واقعے کی تحقیقات کے لیے مختلف انٹیلیجنس اداروں کے اہلکاروں پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دی ہے جس نے جائے وقوع کا دورہ کیا اور وہاں سے شواہد اکٹھے کرنے کے علاوہ بعض عینی شاہدین سے ملاقاتیں بھی کیں۔

دوسری طرف اسلام آباد میں چینی سفیر نونگ رونگ کی سربراہی میں ایک سفارتحانے کی ٹیم نے اپر کوہستان میں علاقہ برسین کا دورہ کیا، جہاں خیبر پختون خوا کے اعلیٰ حکومتی اہلکاروں نے ان کا استقبال کیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان