سنکیانگ پر ہم نے چینی موقف تسلیم کیا: وزیراعظم

وزیراعظم کے مطابق سنکیانگ پر مغربی حکومتوں اور میڈیا میں جو موقف پیش کیا جاتا ہے وہ چین کے مؤقف سے کافی مختلف ہے اور چونکہ پاکستان کے چین کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں لہٰذا ہم نے چین کے موقف کو تسلیم کیا۔

 کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی کوریج مغربی میڈیا میں کم ہوتی ہے، سنکیانگ اور ہانگ کے حوالے سے بہت کچھ سننے کو ملتا ہے جو منافقانہ رویہ ہے : وزیر اعظم(فائل/ عمران خان انسٹاگرام)

وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ چین کے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ میں جو کچھ ہورہا ہے اس حوالے سے مغربی ممالک اور میڈیا میں پیش کیے جانے والے موقف اور چین کے موقف میں واضح فرق ہے، پاکستان نے چین کا موقف تسلیم کیا ہے۔

چین کی حکمران کمیونسٹ پارٹی کے قیام کے 100 برس مکمل ہونے کے موقعے پر اسلام آباد میں چینی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ’سنکیانگ کے حوالے سے ہماری چینی حکام کے ساتھ بات   ہوئی ہے، سنکیانگ کے حوالے سے مغربی حکومتوں اور میڈیا میں جو موقف پیش کیا جاتا ہے وہ چین کے موقف سے کافی مختلف ہے اور چونکہ پاکستان کے چین کے ساتھ کافی مضبوط تعلقات ہیں اور یہ تعلقات اعتماد پر مبنی ہیں لہٰذا ہم نے چین کے موقف کو تسلیم کیا۔‘وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ ’سنکیانگ میں جاری پروگرامز کے حوالے سے چین نے ہمیں جو کچھ بتایا ہم نے اسے تسلیم کیا۔‘

عمران خان نے گفتگو کے دوران مزید کہا ہے ’دنیا میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کشمیر میں ہورہی ہیں لیکن اسے وہاں کوئی توجہ نہیں ملتی، وہاں تقریباً 80 سے 90 لاکھ کشمیری عملی طور پر کھلی جیل میں زندگی گزار رہے ہیں، اسے پولیس سٹیٹ میں تبدیل کردیا گیا ہے، وہاں لوگوں کو ماورائے عدالت قتل کیا جارہا ہے، بلاجواز قید کیا جارہاہے، میڈیا پر قدغن ہے لیکن پھر بھی مغربی میڈیا پر اس کی معمولی کوریج ہوتی ہے، یہ منافقانہ پالیسی ہے۔‘

وزیراعظم نے کہا کہ ’کشمیر میں گزشتہ 30 برسوں میں جدوجہد آزادی کے دوران ایک لاکھ کے قریب کشمیری مارے گئے لیکن اس کی کوریج مغربی میڈیا میں بہت کم ملتی ہے لیکن ہمیں سنکیانگ اور ہانگ کے حوالے سے بہت کچھ سننے کو ملتا ہے جو کہ میرے خیال سے منافقانہ رویہ ہے۔‘

مغربی میڈیا کے حوالے سے چین پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ سنکیانگ کے مسلم اکثریت والے شمال مغربی علاقے میں ایغور نسل کی اقلیتی آبادی پر انسانیت سوز مظالم ڈھا رہا ہے اور ممکنہ طور پر ان کی نسل کشی کررہا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا خیال ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران 10 لاکھ سے زائد ایغور مسلمانوں کو ان کی مرضی کے بغیر حراست میں رکھا گیا جنہیں چینی حکومت ’تعلیمِ نو کیمپس‘ کا نام دیتی ہے جبکہ لاکھوں افراد کو

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

قید کی سزائیں بھی دی گئیں۔

یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ ایغور مسلمانوں سے جبری مشقت لی جاتی ہے جبکہ ان کی خواتین کی زبردستی نس بندی کردی جاتی ہے۔ کیمپس میں رکھی جانے والی بعض خواتین نے تشدد اور جنسی استحصال کے الزامات بھی عائد کیے ہیں۔

جو ممالک سب سے زیادہ چین پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگاتے ہیں ان میں امریکہ سر فہرست ہے۔

دوسری جانب چین سنکیانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے تمام الزامات کو یکسر مسترد کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس خطے میں ’تعلیم نو‘ پروگرام کے تحت قائم کیے گئے کیمپس کا مقصد علیحدگی پسندی اور اسلامی عسکریت پسندی کے رجحان کو ختم کرنا ہے۔

ایغور مسلمانوں کے حوالے سے سامنے آنے والی رپورٹس پر پاکستان کا اب تک کوئی واضح موقف سامنے نہیں آیا تھا اور گزشتہ دنوں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ اس حوالے سے ان کے چینی حکام سے رابطے ہیں۔

واضح رہے کہ سنکیانگ میں ایغوروں کی آبادی تقریباً 12 لاکھ کے قریب ہے، ان کی اپنی زبان ہے جو ترک زبان سے ملتی جلتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان