مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آبادکاروں کی بستی خالی کروا لی گئی

اسرائیلی فوج اور پولیس کے ساتھ  آباد کاروں کی آخری کاریں بھی ڈیڈ لائن سے پہلے فلسطینی شہر نابلس کے قریب غیر قانونی طور پر قائم کی گئی بستی ایویٹر سے نکل گئیں۔

اسرائیلی حکومت کے ساتھ ایک معاہدے کے بعد یہودی آباد کاروں نے جمعے کو مقبوضہ مغربی کنارے میں ایک غیرقانونی بستی خالی کر دی۔

اسرائیلی فوج اور پولیس کے ساتھ  آباد کاروں کی آخری کاریں بھی ڈیڈ لائن سے پہلے فلسطینی شہر نابلس کے قریب غیر قانونی طور پر قائم کی گئی بستی ایویٹر سے نکل گئیں۔

اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینیت نے یہودی آباد کاروں کے لیے جمعے کو چار بجے تک مقبوضہ مغربی کنارے میں غیر قانونی یہودی بستی خالی کرنے کے معاہدے کا اعلان کیا تھا۔

ماضی میں یہودی آباد کاروں کے لیے مہم چلانے والے اسرائیلی وزیر اعظم کی جانب سے پیش کیے گئے معاہدے میں کہا گیا تھا کہ یہودی آباد کاروں کے اس علاقے میں واپسی کے امکانات بھی موجود ہیں۔

یہودی آباد کاروں نے حالیہ ہفتوں کے دوران نابلس کے قریب ایویٹر نامی بستی تعمیر کی تھی جس سے بین الاقوامی اور اسرائیلی قانون کی خلاف ورزی ہوئی تھی۔

یہودی آباد کاروں کے اس اقدام کے خلاف قریبی دیہات میں مقیم فلسطینیوں نے شدید احتجاج کیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بستی خالی کرنے والے یہودی آباد کاروں میں سے ایک سارہ لیسن نے گاڑی نکالنے سے پہلے اے ایف پی کو بتایا: ’مجھے امید ہے کہ ہم بہت جلد یہاں واپس آجائیں گے۔ ہم یہاں ایک بڑا گھر بنا سکتے ہیں۔‘

ایویٹر کے یہودی رہنما زوی سوکوت نے ٹویٹ کیا کہ وہ یہاں سے رخصت ہونے والے آخری شخص تھے۔ انہوں نے کہا: ’یہ ایک افسوسناک لمحہ ہے لیکن یہ امید سے بھر پور ہے۔‘

یہودی آباد کاروں نے 1967 سے اسرائیل کے زیر قبضہ اس فلسطینی علاقے میں کچھ ہفتوں کے دوران ہی ٹھوس مکانات تعمیر کیے تھے اور پہاڑی کی چوٹی پر خیمے لگا لیے تھے۔

اسرائیلی حکومت کی جانب سے جمعرات کو شائع ہونے والے معاہدے کی شرائط کے تحت آباد کاروں کو جمعے کی سہ پہر تک روانہ ہونا پڑا تھا لیکن ان کے گھر اور دیگر عمارتیں جوں کی توں رہ سکتی ہیں اور اسرائیل کی فوج ان کی حفاظت کرے گی۔

اسرائیل کی وزارت دفاع نے کہا کہ وہ اس علاقے کا جائزہ لے گی کہ آیا اس کو اسرائیلی قانون کے تحت سرکاری زمین قرار دیا جاسکتا ہے یا نہیں۔

مغربی کنارے میں قائم تمام یہودی بستیوں کو بیشتر عالمی برادری غیر قانونی تسلیم کرتی ہے۔

اس علاقے کے دعوے دار فلسطینی ہر جمعے کو آبادکاروں کے خلاف احتجاج کرتے آئے ہیں، اور اس جمعے بھی لیزر لائٹوں، ٹائر جلا کر اور گاڑیوں کے ہارن بجا کر آباد کاروں کے جانے سے قبل سراپا احتجاج رہے۔ 

چہرہ ڈھانپے مظاہرے میں شامل ایک شخص نے کہا: ’وہ ہماری زمین پر نہیں رہیں گے۔‘

راد نامی ایک شخص کا کہنا تھا کہ جب آباد کار اپنے ٹریلر ٹرکوں میں آئے تو انہیں لگا کہ ایک یا دو دن تک رکیں گے ’مگر 48 گھنٹوں کے اندر ہی انہوں نے 20 سے زیادہ کارارون بنا ڈالے جس کا مطلب تھا کہ وہ رہنے آئے ہیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا