کیا قانوناً افغان لڑائی کے زخمیوں کا پاکستان میں علاج ہو سکتا ہے؟

انڈپینڈنٹ اردو نے عالمی قوانین کے ماہرین سے جاننے کی کوشش کی ہے کہ کیا ایک ملک کسی دوسرے ملک کے شہری یا لڑائی میں شامل کسی فریق کے زخمی کو علاج کی سہولت فراہم کر سکتا ہے یا نہیں؟

16 جولائی، 2021 کو لی گئی اس تصویر میں چمن کے ایک ہسپتال میں سپن بولدک میں افغان سکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان زخمی ہونے والوں کا علاج ہو رہا ہے (اے پی)

افغانستان سے امریکی فوج کے مرحلہ وار انخلا کے بعد طالبان اور حکومتی فورسز کے درمیان لڑائی میں شدت آ گئی ہے اور طالبان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ملک کے کئی حصوں بشمول سرحدی علاقوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔

ایسا ہی ایک علاقہ پاکستانی سرحد سے ملحق سپن بولدک ہے جسے افغان حکومتی فورسز واپس لینے کی کوشش کر رہی ہیں۔

خبر رساں ادارے  اے ایف پی کے مطابق سپن بولدک میں لڑائی کے نتیجے میں زخمی ہونے والوں کو پاکستان کے سرحدی علاقے چمن کے ہسپتال میں علاج معالجے کے لیے لایا گیا۔

اے ایف پی نے مزید رپورٹ کیا کہ ان زخمیوں میں افغان طالبان کے جنگجو بھی شامل تھے۔

اے ایف پی نے چمن کے ایک ہسپتال کی ویڈیو بھی جاری کی جس میں ڈاکٹروں کو زخمیوں کے علاج میں مصروف دیکھا جا سکتا ہے۔

پاکستانی حکام نے طالبان کے زخمی جگجوؤں کے اپنے سرزمین پر علاج کے حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا۔

خیال رہے کہ افغانستان سے روزانہ سینکڑوں افغان شہری پاکستان کے ہسپتالوں میں علاج کے لیے آتے ہیں، جن میں پشاور کے کچھ نجی ہسپتال سرفہرست ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو نے بین الاقوامی قوانین  کے ماہرین سے جاننے کی کوشش کی ہے کہ آیا سرحد پر ایسی صورتحال کے دوران کیا ایک ملک کسی دوسرے ملک کے شہری یا لڑائی میں شامل کسی فریق کے زخمی کو علاج کی سہولت فراہم کر سکتا ہے یا نہیں؟

پشاور یونیورسٹی کے لا کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر اور پشاور کے انسٹی ٹیوٹ آف ہیومن رائٹس اینڈ ہیو مینیٹرین لا میں جنگ کے دوران ہیومینیٹرین قوانین کا مضمون پڑھانے والے قیصر شاہ نے بتایا کہ افغان سیکورٹی فورسز اور طالبان کے مابین لڑائی جینیوا کنونشن کے مطابق ’نان انٹرنیشنل کانلفلیکٹ‘ ہے یعنی اس لڑائی میں کوئی دوسرا ملک فریق نہیں اور یہ افغانستان کا اندرونی مسئلہ ہے۔

جینیوا کنونشن جنگ کے دوران انسانی حقوق کے متعلق قوانین کا ایک مجموعہ ہے جو دوسری عالمی جنگ کے بعد 1949 میں اپ ڈیٹ کیا گیا۔

اس کنونشن کا پہلا ڈرافٹ 1864 میں پیش کیا گیا تھا جس کے تحت جینیوا میں ریڈ کراس کی بنیاد رکھی گئی۔

ان قوانین کے تحت جنگ کے دوران شہریوں اور زخمیوں کے دوران انسانی حقوق کا خیال رکھا جائے گا۔ اس کنونشن پر دنیا کے تمام ممالک نے دستخط کر رکھے ہیں۔

قیصر خان نے بتایا، ’جینیوا کنونشن کے مطابق افغان حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ جنگ کے دوران زخمیوں کے علاج معالجے کا بندوبست کرے اور زخمیوں کے انسانی حقوق کا تحفظ یقینی بنائے۔‘

ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا پاکستان جینیوا کنونشن کے تحت پابند ہے کہ وہ سرحد پر افغان سپاہی یا افغان طالبان کے جنگجو کا علاج کسی اپنے ہسپتال میں کرے؟

اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان اس لڑائی میں فریق نہیں اس لیے جینیوا کنونشن کے تحت اس پر کوئی پابندی نہیں لیکن اگر وہ انسانی ہمدردی کے تحت بارڈر پر کسی بھی زخمی کو بغیر دستاویزات اپنے ہسپتال میں علاج کی سہولت فراہم کرتا ہے تو اس کو اختیار ہے۔‘

عالمی قوانین کے ماہر اور پشاور اور اسلام آباد میں پریکٹس کرنے والے ایڈوکیٹ دلاور خان کے مطابق جینیوا کنونشن کے تحت جھگڑا چاہے کسی ملک کے اندر ہو یا دو ممالک کے درمیان، اس میں کسی بھی زخمی کو علاج معالجہ فراہم کیا جائے گا چاہے وہ ریگولر فورس سے ہو یا نجی ملیشیا ہو۔

انھوں نے بتایا، ’قانون میں اس حد تک اس پر زور دیا گیا ہے کہ اگر کسی جنگ میں ایک دشمن کا فوجی ہے اور دوسرا اپنا اور دونوں کو خون کی ضرورت ہے تو پہلے دشمن فوجی کی مدد کی جائے گی جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جنگ میں زخمی کا علاج کتنا ضروری ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دلاور سے جب پوچھا گیا کہ طالبان جنگجو یا افغان فورسز کے اہلکار کا پاکستان کے کسی ہسپتال میں علاج قانون کے مطابق ہے؟ تو انہوں نے کہا جینیوا کنونشن سے ہٹ کر بھی جنگ میں کسی زخمی کو پہلے علاج معالجہ فراہم کیا جائے گا اور اس کے بعد باقی قانونی کارروائی کی جائے گی۔

انہوں نے بتایا کہ زخمی کو سب سے پہلے علاج معالجہ اور اس کے بعد دیگر قوانین لاگو ہوتے ہیں کہ اگر وہ کسی ریگولر آرمی کا سپاہی ہے تو اس کو ایک قانون اور اگر کسی ملیشیا کا جنگجو ہے تو اس کو الگ قانون کے مطابق ٹریٹ کیا جائے گا لیکن جب وہ زخمی ہو جائے تو دونوں پر ایک جیسے انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین لاگو ہوتے ہیں۔

انہوں نے بھارتی ایئرفورس کے ونگ کمانڈر ابھینندن کے واقعے کی مثال دے کر بتایا کہ اس میں بھی ایک غیر ملکی کو پاکستان کی حدود میں زخمی حالت میں پایا گیا تو سب سے پہلے پاکستانی حکام نے ان کو ہسپتال منتقل کیا اور باقاعدہ علاج کرایا اور بعد میں دیگر قانونی لوزامات پورے کیے گئے۔

 زخمیوں کی مدد کون کر سکتا ہے ؟

پوری دنیا میں مختلف بین الاقوامی امدادی تنظیمیں موجود ہیں جو جنگ کے دوران فریقین کو علاج معالجے، ان کو ہسپتال پہنچانے اور فرسٹ ایڈ دینے کی سروسز فراہم کرتی ہیں۔

قیصر خان نے اس حوالے سے بتایا کہ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں یہ خدمات آفر کرتی ہیں جنھیں قبول کرنا یا مسترد کرنا ریاست کا اختیار ہے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ جینیوا کنونشن کے مطابق ریڈ کراس کو جنگی ماحول میں دونوں جانب کے زخمیوں کو علاج معالجے اور دیگر سروسز دینے کا حق ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان