مردان کا گاؤں جہاں پانی پینے کے لیے لوگ بارش کا انتظار کرتے ہیں

ضلع مردان کے گاؤں شموزئی میں بارش کے پانی پر چلنے والا صدیوں پرانا کنواں مقامی لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کا واحد طریقہ ہے۔

ضلع مردان کے شمال مشرق کے گاؤں شموزئی میں آج بھی لوگ پینے کے پانی کے لیے بارش کے منتظر رہتے ہیں۔

جب بارش ہوجاتی ہے تو گاؤں میں موجود واحد کنواں پانی سے بھر جاتا ہے اور اس میں موجود چشمے بہنا شروع کردیتے ہیں۔

گاؤں شموزئی کے رہائشی 60 سالہ وکیل شاہ نے بتایا کہ اس کنویں کی تاریخ کے بارے میں مکمل معلومات کسی کے پاس نہیں کہ یہ کب سے موجود ہے، لیکن اتنا ہے کہ جب سے لوگ آباد ہوئے یہ کنواں یہاں موجود تھا۔

انہوں نے بتایا کہ بعد میں گاؤں والوں نے اپنی مدد آپ کے تحت سیمنٹ وغیرہ لگا کر اس کی موجودہ شکل بنائی اور پبلک ہیلتھ والوں نے اس پر ٹیوب ویل لگایا۔

لیکن اس کنویں کا پانی صرف بارش سے تعلق رکھتا ہے، جب بارش ہو تو پانی بہت زیادہ ہوتا ہے لیکن جب بارش نہ ہو تو اس میں پانی کی سطح نیچے چلی جاتی ہے اور پھر گاؤں والوں کو مشکل سے پانی ملتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گاؤں کے تقریباً 650 گھروں کو اسی کنویں سے پانی سپلائی ہوتا ہے، اس کے علاوہ کوئی اور ذریعہ نہیں۔

تقریباً پانچ ہزار نفوس پر مشتمل گاؤں میں پانچ محلے ہیں اور ان سب کو یہاں سے پانی جاتا ہے۔

کنویں میں پانی کم ہونے سے ایک دن بعد دو محلوں کو پانی ملتا ہے، جب کہ باقی محلوں کو اگلے دن پانی سپلائی ہوتا ہے جس کی وجہ سے بچے بچیاں، بوڑھے اور جوان دن کو پانی پورا کرنے کے لیے کنویں سے برتنوں میں پانی لے جاتے ہیں۔

وکیل شاہ نے کہا کہ گاؤں سے باہر دو ٹیوب ویل کھودے گئے جن میں سے ایک ورلڈ بینک کے پیسوں سے بنایا گیا اور جس کے لیے پانی کی ٹینکی بھی بنائی گئی  لیکن بعد میں وہ سیاست کا شکار ہوگیا اور ابھی تک بند پڑا ہے۔

’سب سے بڑی غلطی یہ ہوئی تھی کہ ان کے ساتھ معاہدہ ہوا تھا کہ یہ ٹیوب ویل گاؤں کے لوگ خود چلائیں گے، خرچ بھی لوگوں کا ہوگا اور آمدنی بھی گاؤں کو ملے گی لیکن اس کے لیے لوگ تیار نہیں تھے تو اس طرح سے وہ بند پڑا ہوا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسرا ٹیوب ویل محکمہ پبلک ہیلتھ  نے بنایا لیکن کئی سال گزرنے کے باوجود ابھی تک اس کے لیے بجلی کی لائن نہیں بچھائی گئی اور اب موجودہ حکمران تیسرے ٹیوب ویل کے لیے بھی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’گاؤں میں موجود پرانے قدرتی کنویں کو چلانا تو پبلک ہیلتھ کی ذمہ داری ہے لیکن حکومت کا ایک دن کا کام تو ایک مہینے میں ہوتا ہے، اس لیے لوگوں کو پھر تکلیف ہوتی ہے تواس کا جتنا بھی خرچہ ہوتا ہے گاؤں کے لوگ مل جل کے خود ادا کرتے ہیں۔‘

وکیل شاہ کے مطابق ’گاؤں والوں نے یہ بھی ایک معمول بنایا ہے کہ شام کی نماز کے بعد عورتیں برتن لے کر یہاں سے پانی بھرکے جاتی ہیں اور عشا کے بعد خواتین کا آنا بند ہوجاتا ہے۔

’بعد میں صبح سویرے اندھیرے میں دوبارہ عورتیں اور لڑکیاں پانی لے جانا شروع کرتی ہیں اور صبح صادق تک لے جاتی ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا