طالبان کی کارروائیوں کے ذمہ دار ہیں نہ ترجمان: عمران خان

یہ ممکن نہیں کہ آپ پناہ گزین کیمپوں میں چیک کریں کہ کون طالبان کا ہمدرد ہے اور کون نہیں، وزیر اعظم کی افغان صحافیوں سے گفتگو۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ امریکی فوج کے انخلا کے بعد پاکستان افغانستان میں طالبان کی کارروائیوں کا ذمہ دار نہیں۔

جمعرات کو حکومت پاکستان نے وزیر اعظم کی افغان صحافیوں کے وفد کے ساتھ ایک نشست نشر کی ہے، جس میں انہوں نے مہمان صحافیوں کے مختلف سوالوں کا جواب دیا اور اپنا نکتہ نظر پیش کیا۔

گفتگو کے دوران ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’سب سے پہلے تو یہ کہ طالبان کیا کر رہے ہیں اور کیا نہیں، اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔ آپ کو طالبان سے خود پوچھنا چاہیے کیونکہ ہم ان کے ذمہ دار ہیں اور نہ ہی ان کے ترجمان۔‘

انہوں نے اپنا جواب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آپ کے پاس دو آپشن ہیں۔ 20 سال سے افغان مسئلے کا فوجی حل نکالنے کی کوشش کی گئی جو ناکام ہوئی۔

’اب آپ کو چننا پڑے گا۔ آیا آپ امریکہ کی طرح اس مسئلے کا فوجی حل نکالنے کی کوشش جاری رکھیں یا پھر دوسرا حل طالبان اور حکومت کے درمیان سیاسی سمجھوتے کے بعد ایک حکومت تشکیل دینا ہے، جو واحد حل ہے۔ ہم صرف افغانستان میں امن چاہتے ہیں اور ہماری دلچسپی صرف امن میں ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں 30 لاکھ افغان پناہ گزین ہیں جو تقریباً تمام ہی پشتون ہیں اور ان میں سے اکثر کی ہمدردیاں طالبان کے ساتھ ہیں۔

’ایک ایسے وقت پر جب روزانہ 30 ہزار لوگ افغانستان سے یہاں آ رہے ہیں، پاکستان کیسے نظر رکھ سکتا ہے کہ وہاں کون لڑ رہا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ ممکن نہیں کہ آپ پناہ گزین کیمپوں میں چیک کریں کہ کون طالبان کا ہمدرد ہے اور کون نہیں۔

اسلام آباد میں افغان سفیر کی بیٹی کے مبینہ اغوا اور تشدد کیس پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’ہمارے پاس سیف سٹی کیمروں اور سفیر کی بیٹی نے جو جو ٹیکسی استعمال کی وہ تمام معلومات ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان تمام ٹیکسی ڈرائیورز سے پوچھ گچھ کی گئی ہے۔ افغان سفیر کی بیٹی کے بیان اور کیمروں سے ملنے والی معلومات الگ الگ ہیں۔

’افغان سفیر کی بیٹی نے بتایا کہ انہیں ٹیکسی میں اغوا کیا گیا اور ان پر تشدد کیا گیا لیکن کیمروں میں دیکھا گیا کہ وہ ٹیکسی میں بیٹھی ہیں اور ٹھیک تھیں۔

’بدقسمتی سے ہمیں تمام سوالوں کے جواب نہیں ملے۔ پولیس کے پاس اس سارے روٹ کی معلومات ہیں جہاں جہاں وہ گئیں مگر یہ سب ان کے بیان کے ساتھ میچ نہیں کرتا۔‘

انہوں نے کہا کہ خاتون واپس افغانستان چلی گئی ہیں جس کے بعد ہم تصدیق نہیں کر سکے کہ آخر ہوا کیا تھا۔

’افغانستان سے ایک ٹیم پاکستان آ رہی ہے جنہیں ہم یہ تمام معلومات فراہم کر دیں گے تاکہ وہ واپس جا کر افغان سفیر کی بیٹی سے اس حوالے سے پوچھ گچھ کر سکیں۔‘

بدھ کو پاک افغان یوتھ فورم کے وفد سے علیحدہ گفتگو میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ’بدقسمتی سے افغانستان میں غلط تاثر موجود ہے کہ پاکستان کو عسکری ادارے کنٹرول کرتے ہیں جو سراسر بھارت کا پھیلایا ہوا پروپیگینڈا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میری حکومت کی خارجہ پالیسی گذشتہ 25 سالوں سے میری پارٹی کے منشور کا حصہ رہی ہے۔ میرا ہمیشہ سے یہی موقف رہا ہے کہ افغان مسئلے کا حل عسکری نہیں بلکہ سیاسی طریقے سے ممکن ہے۔‘

’پچھلے 15 سالوں سے پارٹی سربراہ کی حیثیت سے اور پچھلے تین سالوں سے حکومت میں رہ کر میں اپنے موقف پر قائم ہوں اور حکومت کو اس موقف پر عسکری اداروں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔‘

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان دنیا میں کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ افغانستان میں امن چاہتا ہے کیونکہ ’اگر افغانستان میں امن ہوتا ہے تو پاکستان کو وسط ایشیائی ممالک تک رسائی حاصل ہوجائے گی۔‘

سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی کے مطابق وزیر اعظم نے افغان رہنماؤں کے حالیہ بیانات میں پاکستان کو افغان بحران کا ذمہ دار ٹھہرانے کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان نے پہلے امریکہ اور پھر افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے طالبان کو قائل کرنے کے لیے سخت جدوجہد کی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’خطے کا کوئی اور ملک پاکستان کی کوششوں کی برابری کا دعویٰ نہیں کرسکتا، جس کی تائید امریکی نمائندہ خصوصی زالمے خلیل زاد نے بھی کی۔‘

اس ملاقات کا مقصد پاک افغان فورم کے اراکین کے پاک افغان تعلقات، پاکستان کے افغانستان میں پائیدار امن کے لیے اٹھائے گئے اقدامات اور خطے کی مجموعی صورتحال کے حوالے سے PAYF اراکین کے سوالات پر حکومت کا موقف واضح کرنا اور نوجوانوں کو پاکستان کی افغان امن عمل کے لیے کوششوں کے بارے میں آگاہ کرنا تھا۔

افغانستان امن عمل میں پاکستان اور بھارت کے اشتراک سے متعلق سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ بھارت نے پانچ اگست، 2019 میں اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یک طرفہ طور پر کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب تک بھارت اپنے پانچ اگست کے اقدام کو واپس نہیں لیتا اور کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال نہیں کرتا تب تک بھارت سے بات چیت اور پاکستان کے لیے اس کے سہ فریقی افغان امن عمل میں شمولیت کو قبول کرنا ممکن نہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ سے بھارت کے ساتھ امن کا خواہاں ہے مگر بھارت امن نہیں چاہتا کیونکہ وہ اس وقت آر ایس ایس کے نظریے کے زیرِ تسلط ہے جو نہ صرف کشمیر بلکہ بھارت میں مسلمانوں، دیگر مذاہب کے ماننے والوں اور اقلیتوں کے ساتھ برا سلوک کر رہے ہیں۔ یہی محرکات بھارت کے ساتھ امن میں بڑی رکاوٹ ہیں۔

افغانستان میں کھیلوں کے فروغ، خاص طور پر کرکٹ کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کرکٹ کی تاریخ میں کسی دوسرے ملک نے اتنے کم وقت میں ترقی نہیں کی جتنی افغانستان نے کی ہے، جہاں افغان ٹیم اب ہے اس مقام تک پہنچنے میں دوسرے ممالک نے 70 سال لگائے۔

انہوں نے کہا کہ اس کی بڑی وجہ افغان مہاجرین کا پاکستان میں قائم کیمپوں میں کرکٹ کا سیکھنا ہے جو قابل تعریف ہے۔

خیال رہے کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے اعلان کے بعد سے طالبان نے ملک کے متعدد اضلاع میں قبضوں کا دعویٰ کیا ہے جبکہ پاکستان، چین، روس سمیت مختلف ممالک افغان بحران کا سیاسی حل نکالنے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا