حکمت عملی درست نہیں تھی یا پھر دھاندلی ہوئی؟

نواز شریف اور شہباز شریف کے ایک روز کے فرق سے دیے جانے والے متضاد بیانات پر سوشل میڈیا پر بحث ہو رہی ہے۔

4  اکتوبر 2017 کی اس تصویر میں سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بھائی سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور موجودہ اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی شہباز شریف مسلم لیگ ن کے ورکرز کنونشن  کے موقع پر (تصویر: اے ایف پی) 

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں حالیہ انتخابات کے بعد اتوار کو حزب مخالف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف کے بیان اور پیر کو ان کے بڑے بھائی اور ن لیگ کے بانی نواز شریف کی ٹویٹ پر سوشل میڈیا متضاد آرا پر مبنی ٹویٹس سے بھرگیا ہے۔

گذشتہ روز نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام میں صحافی سلیم صافی کو دیے جانے والے اپنے انٹرویو میں ن لیگ کے صدر میاں شہباز شریف نے کہا تھا کہ اگر 2018 کے عام انتخابات میں ان کی سیاسی جماعت درست حکمت عملی اپناتی تو ان کے بڑے بھائی نواز شریف چوتھی بار بھی وزیر اعظم بن جاتے۔

شہباز شریف کے اس انٹرویو کے ایک روز بعد ہی لندن میں علاج کے غرض سے مقیم ان کے بڑے بھائی اور سابق وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے ٹویٹ کیں جن میں انہوں نے کشمیر کے انتخابی نتائج اور نشستوں کی تعداد کے بارے میں چند سطور لکھیں۔

نواز شریف نے اپنے سلسلہ وار ٹویٹس میں لکھا کہ ’پاکستان مسلم لیگ ن کی 5 لاکھ ووٹوں سے 6 سیٹیں اور PTI کی 6 لاکھ ووٹوں سے 26 سیٹیں۔ PTI کی ایسی فتح پر کون یقین کرے گا؟‘

اسی ٹویٹ کی ایک اور کڑی میں انہوں نے لکھا کہ ’ یہ جدوجہدمحض چند سیٹوں کی ہار جیت کے لئے نہیں بلکہ آئین شکنوں کی غلامی سے نجات کے لئیے ہے۔‘

شہباز اور نواز شریف کے بیانات کے بعد سوشل میڈیا پر یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ جو ن لیگ 2018 کے نتائج کو تسلیم نہیں کرتی اور اپنی شکست میں دھاندلی کا الزام لگاتی ہے اس کے صدر ان ہی انتخابات میں اپنی سیاسی حکمت عملی کی خرابی کیوں تسلیم کر رہے ہیں؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اور جماعت کے صدر کے بیان کے اگلے ہی دن جماعت کے بانی نے ایک بار پھر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اپنی سیاسی شکست کے بعد دھاندلی کا الزام کیوں لگایا؟

اس پر دو ٹرینڈز چل رہے ہیں ایک ٹرینڈ تو نواز شریف ہے اور دوسرا  #نوازکی‌جنگ_آئین‌‌کی‌جنگ جس میں مختلف افراد نے مختلف آرا دی ہیں۔

  سوشل میڈیا صارف شیخ سعادت نے حساب کتاب لگا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جیسا حساب نواز شریف لگا رہے ہیں اس کے مطابق 2013 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کی نشستیں پیپلز پارٹی سے کم تھیں۔

مہوش ظفر نامی ایک صارف نے نواز شریف کی حمایت میں ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ واضح کہ نواز شریف کسی سے ڈکٹیشن نہیں لیں گے اور جو درست ہے کہتے رہیں گے۔

میاں مجیب الرحمن نے اپنے ٹویٹ میں پچھلی دو تین حکومتوں کا موجودہ حکومت کے ساتھ مقابلہ کیا ہے۔  انہوں نے لکھا ہے کہ ’پیپلز پارٹی کے دور میں قوم نے مہنگائی دہشتگردی دیکھی پھر نواز شریف کی حکومت آئی اور دونوں پر قابو پایا اب پی ٹی آئی کی حکومت مہنگائی اور دہشتگردی کو فروغ دے رہی ہے۔‘

  میمونہ نامی صارف نے ٹویٹ کیا کہ ملک میں ترقی اسی وقت آیے گی جب آئین کی عمل داری ہوگی۔ اس وقت ملک کو شرمندگی کی صورتحال کا سامنا ہے جس سے ملک کو صرف آزاد اور شفاف انتخابات کے ذریعے ہی نکالا جا سکتا ہے۔

صحافی ارشد شریف نے مسلم لیگ ن کے اندر شہباز شریف اور مریم نواز کے درمیان اختلافات پر بین السطور ٹویٹ کیا کہ ’کوئی شک نہیں ہے کہ مریم نواز مسلم لیگ ن میں مقبولیت کے لحاظ سے شہباز شریف سے کہیں آگے ہیں۔‘

اسی ٹرینڈ میں شامل ہوتے ہوئے پاکستان کی سرکاری خبررساں ایجنسی نے کشمیر کمیٹی کے چیئرمین شہریار آفریدی کے بیان پر ایک خبر شیئر کی جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ن لیگ اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے۔

سرکاری خبر رساں ادارے کی اس خبر میں ن لیگ کا ردعمل شامل نہیں کیا گیا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ٹرینڈنگ