کابل: گرین زون کے قریب دھماکے اور فائرنگ، چار افراد ہلاک

دھماکوں کی یہ تازہ لہر اس وقت اٹھی جب افغان فوج نے طالبان کے خلاف تین روز کی لڑائی کے بعد منظم کارروائی کرنے سے قبل نے رہائشیوں سے کہا کہ وہ محصورذدہ جنوبی شہر خالی کر دیں۔

کار کے ذریعے کیے گئے ایک زوردار بم دھماکے کے بعد منگل کو دیگر کئی دھماکوں اور فائرنگ سے افغانستان کا دارالحکو مت کابل لرز اٹھا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کم از کم چار افراد ہلاک اور 20 زخمی ہوئے ہیں۔

یہ واقعات کابل کے انتہائی حساس علاقے ’گرین زون‘ سے کچھ ہی فاصلے پر پیش آئے ہیں جہاں کئی سفارتخانے اور امریکی مشن واقع ہے۔

دھماکوں کی یہ تازہ لہر اس وقت اٹھی جب افغان فوج نے طالبان کے خلاف تین روز کی لڑائی کے بعد منظم کارروائی کرنے سے قبل نے رہائشیوں سے کہا کہ وہ محصورذدہ جنوبی شہر خالی کر دیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کار کے ذریعے کیا جانے والا دھماکہ وسطی کابل میں منگل کے روز شب کے وقت ہوا۔

سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ دھماکہ وزیر دفاع بسم اللہ محمدی کے گھر کے قریب ہوا جو کہ گرین زون سے زیادہ دور نہیں ہے۔

بم دھماکوں کے بعد محمدی نے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا ہے کہ ’سب ٹھیک ہے اور فکر کی کوئی بات نہیں ہے۔‘


کار بم دھماکے کے دو گھنٹے سے بھی کم عرصے میں ایک اور دھماکہ ہوا اور اس کے بعد کئی ہلکے دھماکے ہوئے جن کے بعد فائرنگ کی آوازیں سنیں گئیں۔ یہ تمام واقعات بھی اس ہی علاقے میں ہوئے جہاں پہلا اور سب سے زور دار دھماکہ ہوا تھا۔

اے ایف پی کے ذرائع کے مطابق کئی افغان قانون ساز بسم اللہ محمدی سے ملاقات کر رہے تھے جس میں طالبان کے خلاف منظم کارروائی کی منصوبہ بندی کی جا رہی تھی۔  

ایک اور افغان اہلکار نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ دھماکے میں ہلاکتیں ہوئی ہیں لیکن ان کی تعداد کے بارے میں تفصیل فراہم نہیں کی۔

ادھر امریکہ نے طالبان طرز کے حملے کی مذمت کی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ ’ہم اس وقت اس واقعے کو کسی سے منسوب نہیں کر سکتے لیکن ہاں اس کا طریقہ کار اور انداز طالبان کے حملوں سے ملتا جلتا ہے جس کا مشاہدہ ہم نے گذشتہ چند ہفتوں کے دوران کیا ہے۔‘

دوسری جانب افغانستان کی فوجی حکام نے صوبہ ہلمند کے صدر مقام لشکر گاہ کے شہریوں سے کہا ہے کہ وہ طالبان کے خلاف ممکنہ کارروائی کے پیش نظر طالبان کے زیر کنٹرول علاقے چھوڑ دیں۔

افغانستان کے سرکاری میڈیا آر ٹی اے نے تیسری میوند کور کے کمانڈر جنرل سمیع سادات کے حوالے سے کہا کہ انہوں نے لشکر گاہ کے رہائشیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ طالبان کے زیر قبضہ علاقوں کو چھوڑ دیں۔

انہوں نے لشکر گاہ میں طالبان کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ شہریوں کی حفاظت بھی اتنی ہی اہم ہے۔

جنرل سمیع سادات نے میڈیا کے ذریعے دیئے گئے دو لاکھ افراد کے شہر کو اپنے پیغام میں کہا کہ ’براہ کرم جلد از جلد وہاں سے چلے جائیں تاکہ ہم اپنا آپریشن شروع کر سکیں۔ میں جانتا ہوں کہ آپ کے لیے اپنے گھروں سے نکلنا بہت مشکل ہے- یہ ہمارے لیے بھی مشکل ہے- لیکن اگر آپ کچھ دنوں کے لیے بے گھر ہیں تو براہ کرم ہمیں معاف کر دیں۔ ‘

انہوں نے کہا کہ وہ طالبان کے خلاف جہاں کہیں بھی ہوں لڑ رہے ہیں۔ ’ہم ان سے لڑیں گے اور ... ہم ایک بھی طالبان کو زندہ نہیں چھوڑیں گے.‘

افغان فورسز اور طالبان کے درمیان منگل کو صوبائی دارالحکومت لشکر گاہ پر کنٹرول کے لیے جھڑپیں ہوئی ہیں جبکہ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ ’اندھا دھند‘ فائرنگ اور فضائی حملوں سے عام شہریوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے۔

افغان حکام نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ طالبان نے صوبہ ہلمند کے دارالحکومت لشکر گاہ میں کئی روز سے جاری لڑائی میں ایک درجن سے زائد مقامی ریڈیو اور ٹی وی سٹیشنوں پر قبضہ کر لیا ہے ۔ اب صرف ایک طالبان نواز چینل اسلامی پروگرام نشر کر رہا ہے۔

محاصرے کے دوران ہرات شہر میں سینکڑوں افراد نے اس وقت اپنی چھتوں سے ’اللہ اکبر‘ کے نعرے لگائے جب حکومتی فورسز نے طالبان کے تازہ ترین حملے کو پسپا کر دیا۔

تاہم شہروں میں لڑائی عام شہریوں پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یو این اے ایم اے) نے منگل کو افغان فوج کے حوالے سے ٹوئٹ کیا کہ طالبان کے زمینی اور فوج کے فضائی حملے سب سے زیادہ نقصان پہنچا رہے ہیں۔

یو این اے ایم اے نے بتایا کہ گذشتہ تین دنوں میں لشکر گاہ میں کم از کم 10 شہری ہلاک اور 85 زخمی ہوئے ہیں۔

شہر میں سکون ریڈیو کے ڈائریکٹر صفت اللہ نے کہا کہ آج صبح لڑائی شدید تھی۔ انہوں نے بتایا کہ امریکی بی 52 اور افغان فضائیہ دونوں نے طالبان کے ٹھکانوں پر حملے کیے۔ انہوں نے کہا کہ شہر کی جیل اور پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے صدر دفتر کی عمارت کے قریب لڑائی جاری ہے۔

پیر کو امریکی وزارت دفاع نے کہا کہ ان کی فضائیہ نے لشکر گاہ میں فضائی حملے کیے ہیں۔ حالیہ دنوں میں امریکی فوج نے طالبان کی پیش رفت روکنے کے لیے ملک بھر میں فضائی حملوں میں تیزی لائی ہے۔

 

ہرات میں افغان حکام نے بتایا کہ سرکاری فورسز شہر کے متعدد علاقوں بشمول ہوائی اڈے کے قریب سے طالبان کو پیچھے دھکیلنے میں کامیاب ہو گئیں جو کمک کی فراہمی کے لیے انتہائی اہم ہے۔

امریکی حکام نے ہرات میں بھی کل رات بمباری کی تصدیق کی ہے۔

اشرف غنی اور اکوڑہ خٹک مدرسہ

افغانستان کے صدر محمد اشرف غنی نے افغان پارلیمنٹ میں خطاب کے دوران قانون سازوں سے مطالبہ کیا کہ وہ طالبان کے خلاف عوامی حمایت کو متحرک کریں۔

انہوں نے کسی ملک یا فرد کا نام لیے بغیر کہا کہ ’ہم اکوڑہ خٹک مدرسے کو افغانستان کے مستقبل کا تعین کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ سکیورٹی کی صورت حال میں بہتری کے لیے ایک منصوبہ بنایا گیا ہے اور اگلے چھ ماہ میں ملک میں بغاوت کی موجودہ لہر ختم ہو جائے گی۔

صدر غنی کے دور میں یہ پہلا موقع ہے کہ پارلیمنٹ کا اس طرح کا غیرمعمولی اجلاس طلب کیا گیا۔

یاد رہے کہ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے اکوڑہ خٹک میں قائم مدرسے سے ماضی میں بڑی تعداد میں افغان طالبان رہنما فارغ التحصیل ہوئے ہیں۔

افغانوں کے لیے مزید ویزے

امریکہ کے دفتر خارجہ کے سوموار کو اعلان کردہ ایک پروگرام کے تحت مزید ہزاروں افغانوں کو، جو امریکی تعلق کی وجہ سے طالبان تشدد کا نشانہ بن سکتے ہیں، امریکہ میں پناہ گزین کے طور پر آباد ہونے کا موقع ملے گا۔

روئٹرز نے اس سے قبل پیر کو سب سے پہلے ’پرائرٹی ٹو‘ پروگرام کے قیام کے منصوبوں کی خبر دی تھی جس میں امریکی مالی اعانت سے چلنے والے منصوبوں اور امریکہ میں قائم غیر سرکاری اداروں اور ذرائع ابلاغ کے اداروں کے لیے کام کرنے والے افغانوں کا احاطہ کیا گیا۔

صدر جو بائیڈن کو 20 سالہ جنگ کے دوران امریکہ کے ساتھ وابستگی کی وجہ سے طالبان کی جوابی کارروائی کے خطرے سے دوچار افغانوں کی مدد کے لیے قانون سازوں اور ایڈوکیسی گروپوں کے دباؤ کا سامنا ہے۔

یہ پروگرام ان افغانوں پر لاگو ہوگا جو خصوصی امیگریشن ویزا (ایس آئی وی) پروگرام کے اہل نہیں، جس میں ترجمانوں اور امریکی حکومت کے لیے کام کرنے والے دیگر افراد اور ان کے اہل خانہ کا احاطہ کیا گیا ہے۔

ایس آئی وی کے تقریباً 400 درخواست دہندگان، جن کے ویزے پروسیسنگ کے آخری مراحل میں ہیں، حالیہ دنوں میں ’آپریشن ایلایز ریفیوج‘ نامی انخلا کا آغاز ہوچکا ہے جس میں 50 ہزار یا اس سے زیادہ افراد شامل ہو سکتے ہیں۔

 وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا کہ امریکہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ اپنے وعدوں کو پورا کر رہے ہیں جنہوں نے ان کی مدد کے لیے اپنے آپ اور اہل خانہ کو خطرے میں ڈالا۔

حکام نے بتایا کہ درخواست دینے کے بعد افغانوں سے ای میل کے ذریعے رابطہ کیا جائے گا تاکہ انہیں بتایا جا سکے کہ وہ امریکی حکومت کے نظام میں ہیں اور پھر انہیں افغانستان سے کسی تیسرے ملک کی طرف سفر خود کرنا ہوگا جہاں وہ اپنی درخواست پر کارروائی کے لیے 12 سے 14 ماہ انتظار کریں گے۔

دفتر خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ ’ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ... افغانوں کے لیے کسی تیسرے ملک یا بعض صورتوں میں تیسرے ملک میں داخلے کا راستہ تلاش کرنا انتہائی مشکل ہے۔‘

پرائس نے کہا کہ امریکی حکام افغانستان کی زمینی حقائق کا جائزہ لینے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور ’ہماری منصوبہ بندی اس کے مطابق ڈھل جائے گی۔‘

دفتر خارجہ کے ایک سینیئر عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر صحافیوں کو بتایا کہ وہ پہلے ہی ہمسایہ ممالک کے علاوہ (اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی) کے ساتھ بات چیت کر چکے ہیں۔

ان کا اصرار تھا کہ پاکستان کی افغانستان کے ساتھ سرحد کھلی رہے تاہم کئی ایران کے راستے ترکی سفر کر سکتے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کے پناہ گزینوں اور تارکین وطن کے حقوق ڈویژن کے ڈائریکٹر بل فریلک نے کہا کہ ایران اور پاکستان نے اپنی سرحدوں پر سکیورٹی بڑھا دی ہے جس کی وجہ سے افغانوں کے لیے اس پروگرام سے فائدہ اٹھانا مزید مشکل ہو گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس طویل سرحد کو پار کرنا ناممکن نہیں لیکن خطرناک ضرور ہے۔

فریلک نے کہا کہ اگر آپ لوگوں کو مشکل علاقوں سے غیرمعمولی طور پر گزرنے پر مجبور کر رہے ہیں اور انہیں خود کو سمگلروں کے رحم و کرم پر ڈالنے پر مجبور کر رہے ہیں تو یہ بہت زیادہ خطرناک ہے۔

ادھر افغانستان کے سرکاری میڈیا آر ٹی اے نے سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کے حوالے سے بتایا کہ ہرات سمیت مزار شریف اور قندھار کے لیے سول پروازوں کو مکمل طور پر بحال کر دیا گیا ہے اور اس کے ڈائریکٹر آج صبح پرواز کے ذریعے ہرات گئے ہیں۔

طالبان پر الزام

کابل میں امریکی اور برطانوی سفارت خانوں نے پیر کو کہا کہ طالبان نے جنوبی افغانستان میں بظاہر شہریوں کے انتقامی قتل کر کے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہوگا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس الزام کی طالبان نے تردید کی ہے۔ دوحہ میں مقیم طالبان مذاکراتی ٹیم کے رکن سہیل شاہین نے روئٹرز کو بتایا کہ ان الزامات پر مشتمل ٹوئٹس ’بے بنیاد اطلاعات‘ ہیں۔

امریکی مشن نے ایک بیان ٹویٹ کیا جس میں طالبان پر جنوبی صوبہ قندھار کے علاقے سپن بولدک میں درجنوں شہریوں کو ہلاک کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔

اس بیان کو برطانوی سفارت خانے نے بھی ٹویٹ کیا تھا۔ ’یہ قتل جنگی جرائم کا باعث بن سکتے ہیں۔ ان طالبان جنگجوؤں یا ذمہ دار کمانڈروں کے خلاف تحقیقات کی جانی چاہیں۔‘

امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے طالبان کی جانب سے مظالم کے ارتکاب کی خبروں کو انتہائی پریشان کن اور مکمل طور پر ناقابل قبول قرار دیا۔

امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ طالبان افغانستان میں تشدد کی بیشتر ’مکروہ اور ظالمانہ کارروائیوں‘ کے ذمہ دار ہیں۔

امریکی و برطانوی مشن کے بیان میں جنگ بندی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا