کابل: امریکہ کا سفارتی عملہ نکالنے کے لیے فوجی دستے بھیجنے کا اعلان

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے صحافیوں کو بتایا: ’ہم سکیورٹی کی صورت حال کے پیش نظر کابل میں اپنے شہریوں کی تعداد کو مزید کم کر رہے ہیں۔ ‘

سات جولائی 2018 کی اس تصویر میں نیٹو مشن کا حصہ امریکی فوجی اہلکار افغان  صوبے ننگرہار میں ایک چیک پوسٹ پر موجود ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

غیر ملکی افواج کے انخلا کے عمل کے دوران ایک طرف طالبان کی جانب سے افغانستان کے مختلف اضلاع پر قبضوں کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے، وہیں امریکہ نے جمعرات کو کہا ہے کہ وہ افغان دارالحکومت کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر فوجی دستے بھیج رہا ہے تاکہ امریکی سفارت خانے کے عملے کو وہاں سے نکالا جا سکے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے صحافیوں کو بتایا: ’ہم سکیورٹی کی صورت حال کے پیش نظر کابل میں اپنے شہریوں کی تعداد کو مزید کم کر رہے ہیں۔ ‘

انہوں نے جو بائیڈن کے حوالے سے بتایا کہ ’صدر کے نزدیک سب سے بڑھ کر ان امریکیوں کی حفاظت اور سلامتی کو ترجیح دیتا ہے، جو بیرون ملک خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ‘

نیڈ پرائس نے مزید کہا کہ سفارت خانہ اپنے موجودہ مقام پر کھلا رہے گا اور ’ترجیحی کام کرتا رہے گا‘ لیکن انہوں نے ان اطلاعات کی تردید نہیں کی کہ یہ کام حامد کرزئی بین الاقوامی ایئرپورٹ پر منتقل کیا جا سکتا ہے۔

پرائس نے کہا کہ امریکہ روزانہ کی بنیاد پر ان مترجمین اور دیگر افراد کو نکالنے کے لیے  پروازیں بھیجنا شروع کرے گا جنہوں نے امریکہ کی مدد کی اور جو طالبان کی پیش قدمی کی وجہ سے خوفزدہ ہیں۔


ہرات کے بعد بادغیس کے دارالحکومت پر بھی طالبان کا ’قبضہ ‘

افغان طالبان نے صوبہ ہرات کے دارالحکومت کے بعد جمعرات کو صوبہ بادغیس کے دارالحکومت پر بھی قبضے کا دعویٰ کیا ہے۔

تاہم افغان حکام کی جانب سے ابھی تک اس دعوے کی تصدیق نہیں کی گئی۔

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ کا مجاہد کی جانب سے جمعرات کو جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ طالبان نے صوبہ بادغیس کے دارالحکومت قلعہ نو پر قبضہ کرلیا ہے۔

ترجمان کے مطابق صوبے کا گورنر ہاؤس، انٹیلی جنس کمپاؤنڈ اور دیگر اہم تنصیبات اب طالبان کے قبضے میں ہیں۔

بادغیس صوبے کی سرحد ترکمانستان سے ملتی ہے۔ یہ صوبہ چھ اضلاع پر مشتمل ہے، جس کی آبادی تقریباً پانچ لاکھ ہے۔

اس سے قبل افغان طالبان کے ترجمان قاری یوسف احمدی نے میڈیا کو جاری کیے گئے بیان میں ہرات کے صوبائی دارالحکومت کو قبضے میں لیے جانے کا دعویٰ کیا تھا۔

قاری یوسف احمدی نے کہا تھا کہ لڑائی کے بعد ہرات صوبے کا گورنر ہاؤس، پولیس ہیڈ کوارٹر اور دیگر اہم تنصیبات اب طالبان کے قبضے میں ہیں۔

ہرات افغانستان کے مغربی صوبوں میں تاریخی لحاظ سے بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔ ہرات صوبے کا مرکزی شہر افغانستان کا تیسرا بڑا شہر ہے، جہاں ماضی میں بھی تاریخی لڑائیاں ہوئی ہیں۔

ہرات کی آبادی افغانستان کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق تقریباً 17 لاکھ ہے اور یہ کل 14 اضلاع پر مشتمل ہے۔

ہرات کا ایران اور ترکمانستان کے ساتھ مشترکہ بارڈر ہے، جب کہ اس صوبے کی حدود افغانستان کے صوبہ نیمروز(جو پہلے سے طالبان کے قبضے میں ہے)، بادغیس، فراہ اور غور کے ساتھ ملتی ہیں۔

قبل ازیں طالبان صوبہ غزنی پر بھی قبضہ کر چکے ہیں۔

غزنی اس وجہ سے بھی اہم سمجھا جاتا ہے کہ یہ کابل سے تقریباً 150 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، جہاں سے مبصرین کا خیال ہے کہ طالبان کابل کی طرف پیش قدمی کر سکتے ہیں۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ہلمند اور زابل میں بھی افغان سکیورٹی فورسز اور طالبان کی لڑائی جاری ہے۔ افغان طالبان کے مطابق افغانستان کے 34 صوبوں میں 12 صوبوں کا کنٹرول اب ان کے پاس ہے۔


افغان حکومت کی طالبان کو اقتدار میں شرکت کی پیش کش

قطر میں افغان حکومت کے مذاکرات کاروں نے طالبان کو جنگ بند کرنے کے بدلے میں اقتدار میں شراکت کی پیش کش کی ہے۔

خبررساں ادارے اے ایف پی نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ پیش کش قطر میں جاری ٹرائیکا پلس مذاکرات کے دوران کی گئی۔

ذرائع نے کہا، ’حکومت نے قطر کو بطور سہولت کار بنا کر یہ پیش کش کی ہے۔ اس پیش کش کے تحت طالبان ملک میں تشدد بند کرنے کے بدلے میں اقتدار میں شریک ہو سکتے ہیں۔‘

ایک ہفتے کے اندر اندر دس صوبائی صدر مقام طالبان کے قبضے میں آ جانے کے بعد افغان حکومت نے طالبان کو اقتدار میں شراکت کی پیشکش کی گئی ہے۔

افغان طالبان قطر دفتر کے ترجمان ڈاکٹر محمد نعیم نے انڈپینڈنٹ اردو کے نمائندے اظہار اللہ کو ’افغان حکومت کی جانب سے طالبان کو حکومت میں حصہ دینے کی پیشکش‘ کے حوالے سے بتایا کہ انہیں فی الوقت اس بات کا علم نہیں۔

’کوئی پتہ نہیں کہ کابل حکومت کی جانب سے کس نے اور کس کو حکومت میں حصہ دینے کی بات کی ہے اور نہ ہمیں اس حوالے سے کوئی خبر ہے۔‘

ڈاکٹر نعیم کا کہنا تھا کہ اہم بات یہ ہے کہ ابھی جو ’جہاد‘ ہم افغانستان میں کر رہے ہیں یہ کرسی کے لیے نہیں بلکہ اسلامی نظام اور آزادی حاصل کرنے کرنے کے لیے کر رہے ہیں اور یہ جاری رہے گا۔

انھوں نے بتایا ’ہم پہلے سے اسی افغان نظام کا حصہ ہیں اور اس سے باہر نہیں ہیں۔ اگر ہم کرسی کے لیے لڑتے تو 2001 میں ہمارے پاس ان (موجودہ حکومت) سے زیادہ اور اچھے عہدے تھے۔‘


طالبان کا اہم شہر غزنی پر قبضہ

طالبان نے دارالحکومت کابل سے محض 95 میل کے فاصلے پر موجود اہم شہر غزنی پر قبضہ کر لیا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس بات کی تصدیق طالبان اور ایک سینئیر افغان قانون ساز دونوں نے کر دی ہے۔

غزنی کا شہر ایک ہفتے میں طالبان کے قبضے میں جانے والا دسواں صوبائی دارالحکومت ہے۔ یہ شہر کابل اور قندھار کے اہم شہروں کے درمیان موجود شاہراہ پر واقع ہے۔

غزنی کے طالبان کے قبضے میں جانے کے بعد افغان دارالحکومت کابل اور اہم شہر قندھار کے درمیان کا اہم راستہ حکومت کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔

صوبائی کونسل کے سربراہ ناصر احمد فقیری کا اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’طالبان نے شہر کے اہم مقامات پر قبضہ کر لیا ہے۔ جن میں گورنر کا دفتر اور پولیس ہیڈکوارٹرز اور جیل شامل ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’شہر کے مختلف حصوں میں ابھی تک لڑائی جاری ہے اور شہر کا زیادہ تر حصہ طالبان عسکریت پسندوں کے قبضے میں ہے۔‘

دوسری جانب طالبان نے بھی شہر پر قبضے کی تصدیق کر دی ہے۔ سوشل میڈیا پر طالبان کے ترجمان کی جانب سے پوسٹ کیے جانے والے بیان کے مطابق طالبان نے غزنی شہر کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔

غزنی پر طالبان کا قبضہ پہلے سے دباؤ کی شکار افغان فضائیہ کے لیے مزید پیچیدہ صورت حال کا باعث بنے گا جسے کئی محاذوں پر پھیلی افغان افواج کی مدد میں مشکل درپیش ہے۔ افغان افواج کو زمینی راستوں کے ذریعے رسد کی کمی کا سامنا ہے۔

ایک ہفتے سے بھی کم وقت میں طالبان نے دس اہم صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کر لیا ہے اور اس وقت وہ مزار شریف کے اہم شمالی شہر کا گھیراؤ کر چکے ہیں۔

شمالی شہروں کے علاوہ جنوب میں قندھار اور لشکر گاہ کے علاوہ ہرات میں بھی طالبان اور حکومتی افواج کے درمیان لڑائی میں شدت آ چکی ہے۔

بدھ کو طالبان نے قندھار شہر کو ’مکمل فتح‘ کرنے کا دعوی بھی کیا ہے۔ اس کے علاوہ طالبان کی جانب سے ’سینکڑوں قیدیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل‘ کرنے کا اعلان بھی کیا گیا تھا۔


اشرف غنی کی موجودگی تک طالبان بات چیت نہیں کریں گے: عمران خان

وزیراعظم پاکستان عمران خان نے امریکہ پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ پاکستان کو صرف اس 'گندگی' کے تناظر میں کارآمد سمجھتا ہے جو وہ افغانستان میں 20 سال سے جاری جنگ کے بعد چھوڑ کر جارہا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق غیر ملکی صحافیوں سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 'پاکستان کو صرف یہ گندگی ٹھکانے لگانے کے تناظر میں کارآمد سمجھا گیا ہے جو 20 سال سے ایک فوجی حل تلاش کرنے کی کوشش میں پیچھے رہ گیا ہے جبکہ کوئی عسکری حل تھا ہی نہیں۔‘

یاد رہے حالیہ ہفتوں میں افغانستان میں طالبان کی عسکری کارروائیوں میں شدت آ چکی ہے اور طالبان اور افغان حکومت کے مابین مذاکرات تعطل کا شکار ہیں اور افغانستان میں پر تشدد کارروائیاں بڑھ چکی ہیں۔

اس صورت حال کے تناظر واشنگٹن اسلام آباد پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ ایک امن معاہدہ کرانے کے لیے طالبان پر اپنا اثر رسوخ استعمال کرے۔

وزیراعظم کے مطابق پاکستان افغانستان میں کسی کی طرف داری نہیں کر رہا۔

وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں امریکیوں نے فیصلہ کرلیا ہے اب ان کا سٹریٹیجک پارٹنر بھارت ہوگا اور میرے خیال میں اسی وجہ سے پاکستان کے ساتھ مختلف طرح سے سلوک کیا جارہا ہے۔‘

پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے روایتی حریف ہیں جو تین جنگیں لڑ چکے ہیں جب کہ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات بھی کشیدگی کا شکار ہیں۔

عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ ’موجودہ حالات میں افغانستان میں ایک سیاسی حل مشکل دکھائی دیتا ہے۔‘

اپنے انٹرویو میں وزیر اعظم پاکستان کا کہنا تھا : طالبان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ جب تک افغان صدر اشرف غنی یہاں موجود ہیں وہ افغان حکومت سے بات چیت نہیں کریں گے۔

وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان واضح کرچکا ہے کہ وہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد ملک میں کوئی امریکی فوجی اڈہ نہیں چاہتا۔


طالبان 30 دنوں میں دارالحکومت کابل کا محاصرہ کر سکتے ہیں: امریکی دفاعی اہلکار

افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی تیزی سے جاری ہے اور ایک امریکی دفاعی اہلکار کا کہنا ہے کہ طالبان 30 دنوں میں دارالحکومت کابل کا محاصرہ کر سکتے ہیں اور 90 دن میں اس پر قبضہ کر سکتے ہیں۔

بدھ کو خبر رساں ادارے روئٹرز سے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے ایک دفاعی عہدیدار نے امریکی انٹیلی جنس رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ کابل کے بارے میں یہ تجزیہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے دوران طالبان کی پیش قدمی کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ کوئی حتمی نتیجہ نہیں ہے‘ اور افغان سکیورٹی فورسز اگر مزاحمتی کارروائیاں اور تیز کر دیں تو وہ اب بھی طالبان کی پیش قدمی کو روک سکتی ہیں۔

یورپی یونین کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے گذشتہ روز کہا تھا کہ طالبان اب ملک کے 65 فیصد حصے پر قابض ہیں اور کئی صوبائی دارالحکومتوں پر کنٹرول حاصل کر چکے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صوبہ بدخشاں کا فیض آباد بدھ کو طالبان کے قبضے میں جانے والا آٹھواں صوبائی دارالحکومت بن گیا۔

دوسری جانب قندھار میں شدید لڑائی جاری ہے، جہاں صوبے کے جنوب میں ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ افغان سکیورٹی فورسز کی کئی لاشیں اور کئی زخمی طالبان جنگجو ملے ہیں۔

کابل میں داخلے کی تمام راستے تشدد سے بچ کر نکلنے والے شہریوں سے بھرے ہیں جہاں وہ تحفظ کی تلاش میں جا رہے ہیں۔

دفاعی ذرائع کا کہنا تھا کہ یہ بتانا مشکل ہے کہ آیا کابل میں داخل ہونے والوں میں طالبان جنگجو بھی شامل ہیں یا نہیں۔

انہوں نے کہا: ’خدشہ یہ ہے کہ خودکش بمبار سفارتی کوارٹرز میں داخل ہوسکتے ہیں۔‘


افغانستان میں امن کے لیے طالبان سے مل لوں گا: اردوغان

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے کہا ہے کہ وہ افغانستان میں امن کے قیام کے لیے طالبان کے سربراہ سے ملنے کے خواہاں ہیں۔

امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو بدھ کو ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا: ’حالیہ پیش رفت اور افغان عوام کی صورت حال بہت تشویش ناک ہے۔‘

ترک عہدیداروں کی طالبان سے بات چیت کی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا: ’شاید میں ان (طالبان) کے سربراہ کی میزبانی کرنے کی پوزیشن میں ہوں۔‘

اردوغان نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ ترکی امن عمل کے دوران طالبان سے مذاکرات کرے گا۔

نیٹو کے رکن کے طور پر ترکی کے فوجی افغانستان میں موجود ہیں اور ترکی نے امریکی افواج کے اگست کے اختتام پر جانے کے بعد کابل کے اہم ہوائی اڈے کی سکیورٹی سنبھالنے کی پیش کش بھی کی ہے۔


طالبان کے حملے 2020 کے معاہدے کے خلاف ہیں: امریکہ

امریکہ وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا ہے کہ طالبان کے افغانستان میں حملے 2020 کے دوحہ معاہدے کی روح کے خلاف ہیں۔

انہوں نے بدھ کو کہا کہ طالبان نے امریکہ کے ساتھ معاہدے میں امن مذاکرات پر اتفاق کیا تھا جن سے ’مستقل اور جامع جنگ بندی‘ کی راہ ہموار ہوگی۔ ’تاہم تمام شواہد اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ طالبان جنگی جیت کا پیچھا کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا: ’صوبائی دارالحکومتوں اور شہریوں کو نشانہ بنانا معاہدے کی روح سے متصادم ہے۔‘

اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ گذشتہ ماہ لڑائی میں ایک ہزار سے زائد شہری مارے گئے ہیں جبکہ انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس نے کہا ہے کہ یکم اگست سے اس کی 15 فیسیلیٹیوں میں چار ہزار سے زائد زخمیوں کو امداد دی گئی ہے۔

تاہم طالبان نے شہریوں کو نشانہ بنانے کی تردید کی ہے اور آزاد تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

ترجمان سہیل شاہین نے کہا کہ ان کی تنظیم نے ’کسی شہری یا ان کے گھروں کو نشانہ نہیں بنایا اور آپریشن بہت احتیات سے کیے گئے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا