طالبان: لشکر گاہ میں پولیس ہیڈ کوارٹر کنٹرول سنبھالنے کا دعویٰ

طالبان ترجمان نے جاری شدہ بیان میں لکھا ہے کہ ہیڈ کوارٹر سے افغان حکومت کی سیکورٹی فورسز گورنر ہاؤس کی طرف پسپا ہو گئیں اور لڑائی ابھی تک جاری ہے۔

لشکر گاہ میں اینٹی طالبان ملیشیا (تصویر: اے ایف پی)

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے دعوی کیا ہے کہ انھوں نے صوبہ ہلمند کے دارالحکومت لشکر گاہ میں پولیس ہیڈ کوارٹر کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔

طالبان ترجمان نے جاری شدہ بیان میں لکھا ہے کہ ہیڈ کوارٹر سے افغان حکومت کی سیکورٹی فورسز گورنر ہاؤس کی طرف پسپا ہو گئیں اور لڑائی ابھی تک جاری ہے۔

افغانستان میں غیر ملکی فوج کے انخلا کے بعد طالبان کی جانب سے ملک کے مختلف اضلاع پر قبضہ کیے جانے کے نتیجے میں شہری نقل مکانی پر مجبور ہیں۔

کابل میں موجود صحافی بلال سروری کے مطابق اپنے خاندانوں کے ساتھ نقل مکانی کرنے والے ان افغان شہریوں کے پاس نہ تو کھانے کو کچھ ہے اور نہ ہی دیگر اشیائے ضروریہ۔ ایسے میں کابل میں کچھ صاحبِ حیثیت افراد ان مجبور لوگوں کی مدد میں پیش پیش ہیں، جن میں سابق افغان آرمی چیف یاسین ضیا بھی شامل ہیں۔

سابق آرمی چیف کی جانب سے ایک ہزار افراد کو صبح شام تیار کھانا اور دیگر اشیا فراہم کی جاتی ہیں۔


جرمنی اور ہالینڈ نے افغان پناہ گزینوں کی جبری واپسی روک دی

طالبان کی پیش رفت کے بعد افغانستان میں بگڑتی ہوئی سکیورٹی کے تناظر میں جرمنی اور نیدرلینڈز نے افغان مہاجرین کی جبری وطن واپسی کا عمل روک دیا ہے۔ 

جرمنی کی وزارت داخلہ کے ترجمان اسٹیو الٹر نے ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا: ’سیکورٹی کی موجودہ صورتحال کے باعث وزیر داخلہ نے افغان شہریوں کی ملک بدری کو فی الحال روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘ 

دوسری جانب دا ہیگ میں ڈچ سٹیٹ سیکریٹری فار جسٹس اینڈ سکیورٹی اینکی بروکرز نول نے افغان شہریوں کی ملک بدری کے فیصلوں اور ان کی روانگی کو معطل کرنے کا اعلان کیا ہے۔

ڈچ پارلیمنٹ کو لکھے گئے ایک خط میں انہوں نے لکھا کہ ’غیر ملکی افغان شہریوں کے لیے یہ تعطل چھ ماہ کے لیے لاگو ہو گا۔‘

جرمنی اور نیدرلینڈ کے بدھ کو لیے گئے یہ فیصلے ان کی سابقہ پوزیشن کے بالکل برعکس ہیں۔

جرمن اور ڈچ عہدیداروں نے منگل کو کہا تھا کہ دونوں حکومتیں آسٹریا، بیلجیم، ڈنمارک اور یونان میں اپنے ہم منصبوں کے ساتھ مل کر یورپی یونین کے ایگزیکٹو ونگ سے مطالبہ کریں گی کہ اگر افغان پناہ گزینوں کی پناہ کی درخواستیں رد ہو جاتی ہیں تو انہیں ملک بدر کرنے کی اجازت دی جائے۔

افغانستان نے جولائی میں یورپی یونین پر زور دیا تھا کہ وہ افغان مہاجرین کی جبری ملک بدری کو تین ماہ کے لیے موخر کردے کیونکہ 31 اگست کو افغانستان سے امریکی فوج کے مکمل انخلا سے قبل سکیورٹی فورسز طالبان کے حملوں کا مقابلہ کر رہی ہیں۔

طالبان نے حالیہ دنوں میں شمال میں بڑی پیش رفت کی ہے جہاں انہوں نے صوبائی دارالحکومت قندوز سمیت کئی شہروں پر قبضہ کر لیا ہے۔

جرمن وزیر دفاع نے اس پیش رفت پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے پیر کو ٹوئٹر پر لکھا: ’قندوز اور پورے افغانستان سے آنے والی رپورٹس تلخ اور بہت تکلیف دہ ہیں۔‘

شمالی افغانستان کو طویل عرصے سے طالبان مخالف طاقتوں کا گڑھ سمجھا جاتا رہا ہے، جنہوں نے 1990 کی دہائی میں عسکریت پسندی کے خلاف سخت مزاحمت کی تھی۔


افغان سیکورٹی فورسز کا حوصلہ بلند کرنے کے لیے اشرف غنی کا شمالی علاقوں کا دورہ

افغان صدر اشرف غنی افغان سکیورٹی فورسز کا حوصلہ بلند کرنے کے لیے بدھ کو طالبان کے زیر محاصرہ شہر مزار شریف کا دروہ کر رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق صدارتی محل سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ صدر غنی اس دورے پر ’شمالی زون کی سکیورٹی کا جائزہ لیں گے۔‘

وہ مزار شریف کی اہم شخصیات عطا محمد نور اور طالبان مخالف ملیشیا کے سربراہ عبدالرشید دوستم سے شہر کے دفاع کے بارے میں بات چیت کریں گے، جس کے مضافات میں طالبان اور قریب آتے جار ہے ہیں۔

مزار شریف پر طالبان کا قبضہ افغان حکومت کے لیے ایک بڑی شکست ہوگی کیونکہ وہ ملک کے اس شمالی حصے کا تمام کنٹرول کھو بیٹھے گی جو ماضی میں طالبان مخالف ملیشیاؤں کا گڑھ رہا۔

صدر غنی کے مزار شریف پہنچنے سے کچھ گھنٹوں قبل سرکاری سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر تصاویر پوسٹ کی گئیں جن میں دوستم کو کچھ کمانڈوز سمیت مزار شریف جانے والے جہاز میں سوار ہوتے دیکھا گیا۔

مزار شریف کے مشرق میں صوبہ بدخشان کے دارالحکومت فیض آباد میں ایک قانون ساز نے اے ایف پی کو بتایا کہ طالبان کے ساتھ بھاری جھڑپوں کے کئی دن بعد شہر سے سکیورٹی فورسز پیچھے ہٹ گئی ہیں۔

ذبیح اللہ عتیق کے مطابق: ’طالبان اب شہر پر قابض ہوگئے ہیں۔‘

دوسری جانب وزات دفاع نے سوشل میڈیا پر دعویٰ کیا کہ گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران افغان سکیورٹی فورسز کے ننگرہار، لغمان، لوگر، پکتیہ، آرزغان، زابل، فرح اور بلخ سمیت مختلف علاقوں میں آپریشنز کے نتیجے میں 400 سے زائد شدت پسند مارے گئے۔


امریکی فوج واپس بلانے پر افسوس نہیں: صدر بائیڈن

 

امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے منگل کو افغان رہنماؤں پر زور دیا ہے کہ وہ طالبان کے خلاف متحد ہو کر اپنی قوم کے لیے لڑیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی صدر کا کہنا تھا کہ انہیں افغانستان سے امریکی فوج واپس بلانے پر کوئی افسوس نہیں۔

وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے بات چیت میں جو بائیڈن نے کہا: ’افغان رہنماؤں کو متحد ہونا ہوگا۔ انہیں اپنی جنگ خود لڑنی ہو گی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ افغان حکومت کی مدد کرتا رہے گا لیکن انہیں دو دہائیوں کی جنگ کے بعد 31 اگست تک افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے فیصلے پر کوئی افسوس نہیں۔

روئٹرز کے مطابق صدر بائیڈن نے کہا کہ افغان فوج کی تعداد طالبان سے زیادہ ہے اور اسے لڑنا ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ 20 سال کے دوران واشنگٹن نے ایک کھرب ڈالرز سے زیادہ رقم خرچ کی۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ افغانستان کو اہم فضائی معاونت، خوراک، سامان اور افغان فورسز کو تنخواہیں دیتا رہے گا۔

دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ وہ علاقائی میلیشاؤں سے مدد لینے کے لیے کی کوشش کر رہے ہیں، جن سے برسوں سے لڑتے آئے ہیں۔ انہوں نے افغان شہریوں سے اپیل کی کہ ملک کے جمہوری نظام کا دفاع کریں۔


طالبان افغانستان کے 65 فیصد حصے پر قابض: یورپی یونین

یورپی یونین کے ایک عہدے دار نے کہا ہے کہ طالبان نے مسلسل کامیابیوں اور غیرملکی فوج کے انخلا کے بعد اب افغانستان کے 65 فیصد حصے کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔

روئٹرز کے مطابق طالبان نے منگل کی شام صوبہ بغلان کے دارالحکومت پل خمری پر قبضہ کر لیا۔

علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ افغان سکیورٹی فورسز صحرائے کلاگی کی جانب پسپائی اختیار کر رہی ہیں جو جہاں افغان فوج کا بڑا اڈہ واقع ہے۔ پل خمری ساتواں صوبائی دارالحکومت ہے جس پر طالبان نے ایک ہفتے میں قبضہ کیا۔

یورپی یونین کے سینیئر عہدے دار نے منگل کو کہا کہ طالبان نے 65 فیصد افغان علاقے کا انتظام سنبھال لیا ہے اور قبضے کے حوالے سے 11 صوبائی دارالحکومتوں کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔

مزید برآں طالبان کابل حکومت کو شمال میں قومی فورسز سے حاصل روایتی مدد سے محروم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

یورپی یونین کے عہدے دار کا مزید کہنا ہے کہ حالیہ مہینوں میں تقریباً چار لاکھ افغان شہری نقل مکانی کر چکے ہیں جبکہ گذشتہ 10 روز میں ایران فرار ہونے والے افغان شہریوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔

ادھر یورپی یونین کے چھ رکن ممالک نے یورپ پہنچنے والے ان افغان پناہ گزینوں کی ملک بدری روکنے کے خلاف خبردار کیا ہے جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد کی جا چکی ہیں۔

یورپی یونین کو خطرہ ہے کہ 10 لاکھ سے زیادہ پناہ گزینوں، جن میں زیادہ تعداد مشرق وسطیٰ سے آنے والوں کی ہے، کی آمد سے 16-2015 والا بحران دوبارہ پیدا ہو سکتا ہے۔


طالبان کا مزید شہروں پر قبضہ

طالبان نے گذشتہ روز صوبے فرح کے دارالحکومت فراہ اور بغلان کے دارالحکومت پل خمری پر بھی قبضہ کر لیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دونوں شہروں میں عہدے داروں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو اس کی تصدیق کی۔

بغلان سے ایم پی مامور احمدزئی نے کہا: ’طالبان اب شہروں میں ہیں۔ انہوں نے مرکزی چوک اور حکومتی عمارتوں پر اپنا جھنڈا لگا دیا ہے۔‘

طالبان نے بھی ٹویٹس میں ان شہروں پر قبضے کا اعلان کیا۔

جمعے سے جن دارالحکومتوں پر قبضہ ہوا ہے ان میں سے چھ ملک کے شمال میں ہیں جہاں ماضی میں عام طور پر طالبان کا زیادہ زور نہیں ہوا کرتا تھا۔

اب طالبان کی نظریں مزار شریف پر ہیں جو خطے کا سب سے بڑا شہر ہے۔


امریکی وزیر دفاع کا جنرل باجوہ سے رابطہ

امریکہ نے کہا ہے کہ واشنگٹن پاکستان امریکہ تعلقات کو بہتر کرنے پر مزید کام کرنا چاہتا ہے۔

پینٹاگون کی جانب سے جاری بیان کے مطابق امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ٹیلیفونک رابطے میں افغانستان میں جاری صورت حال، علاقائی سکیورٹی اور دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعلقات پر بات چیت کی۔

دوسری جانب پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے گذشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ امریکہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر عسکریت پسندوں کے لیے محفوظ ٹھکانوں کے بارے میں پاکستانی قیادت سے بات کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’ہم جانتے ہیں کہ یہ محفوظ ٹھکانے افغانستان میں مزید غیر مستحکم صورت حال بنانے میں کردار ادا کر رہے ہیں، اور ہم پاکستانی قیادت سے اس پر بات کر رہے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ