افغانستان: 20 سال بعد طالبان کا قبضہ، امریکہ نے کہاں غلطی کی؟

افغانستان میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال نے ہر کسی کو حیرت میں ڈال دیا ہے لیکن سب سے زیادہ تشویش اور خفت امریکہ سے زیادہ شاید ہی کسی کو اٹھانی پڑی ہوگی۔

افغانستان میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال نے ہر کسی کو حیرت میں ڈال دیا ہے لیکن سب سے زیادہ تشویش اور خفت امریکہ سے زیادہ شاید ہی کسی کو اٹھانی پڑی ہوگی۔

ویت نام اور عراق کی غلطیوں سے بھی اس ملک نے بظاہر کچھ نہیں سیکھا۔ اب تو مستقبل میں کسی ملک کی عسکری مدد کی پیشکش کس منہ سے کر پائے گا۔ گذشتہ 20 سالوں میں افغانستان میں جمہویت اور سکیورٹی کے نام پر اربوں کھربوں ڈالر انڈیل دیئے لیکن حاصل وصول صفر بٹا صفر۔ نہ جمہوریت اور نہ ہی جمہوریت پسند افغان رہنما اتنے توانا ہوئے کہ جم کر کھڑے ہوسکتے اور نہ ہی سکیورٹی فورسز میں اتنا دم نظر آیا کہ کہیں مزاحمت کی صورت ہی دکھا سکتے۔

بس ثابت ہوا کہ چاہے وجہ کوئی بھی ہو کسی ملک میں زبردستی گھس کر مصنوعی تبدیلیاں لانے کی دو دہائیوں کی کوششیں رائیگاں ثابت ہوئیں۔ قبائلی معاشرے کو جمہوری تو کیا بناتے اتنا بھی نہ بنا سکے کہ افغان منتخب رہنماؤں کے دو لفظ بھی عام عوام کے لیے کچھ معنی ہی رکھتے۔

تو پھر ان 20 سالوں میں امریکہ کی تین بڑی غلطیاں کیا رہیں؟ ہر شخص، صحافی اور تجزیہ کار اب ان حالات پر بات کر رہا ہے۔

افغان فورسز

اربوں ڈالر اور امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے عسکری ماہرین افغان فوج کو کوئی ایسا فارمولہ یا ہدف دینے میں ناکام رہے، جو انہیں افغان طالبان کے مقابلے میں لاکھڑا کرتی۔ ان کے دماغ شاید یہ ماننے کو تیار نہ ہوئے کہ طالبان جتنے بھی خراب ہوں ان کا مقابلہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لشکر گاہ جیسے مقامات پر کچھ افغان فورسز کے کمانڈرز میں کوئی چنگاری دکھائی دی لیکن وہ باضابطہ آگ کی صورت اختیار نہ کرسکی۔ وہ کیوں بدعنوان اور اوپر سے لائے گئے رہنماؤں کی خاطر اپنی جان خطرے میں ڈالیں۔ اب افغان فوج کا وجود ختم ہوچکا ہے۔ نئی طالبان حکومت ان سے کیا رویہ اختیار کرتی ہے، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔

امریکی انٹیلی جنس

امریکی حکام اپنی انٹیلی جنس پر بڑا فخر کرتے رہے ہیں لیکن ان کی تمام جمع تفریق بھی غلط ثابت ہوئی ہے۔ نہ انہیں یہ اندازہ ہوا کہ طالبان کتنی جلد دیہی نہیں بلکہ شہری علاقوں پر قابض ہو جائیں گے بلکہ ان کی تعداد کہ آخر کتنے طالبان جنگجو موجود ہیں؟ بھی کبھی درست ثابت نہیں ہوئی۔

حالیہ دنوں میں تازہ ترین اندازہ ان کا یہ تھا کہ طالبان 90 دن تک کابل پر قابض ہو جائیں گے لیکن انہوں نے ایسا محض 24 گھنٹوں میں کرکے دکھا دیا۔ ان کی فضائی مدد بھی طالبان کو روک نہ سکی۔

عراق جنگ کی طرف توجہ اور وسائل کا رخ موڑنا اور طالبان کی طاقت اور لمبی عمر کا غلط اندازہ لگانا تحریک کی بحالی کا باعث بنا۔

2004 تک طالبان نے انتہائی سطح یعنیگاؤں گاؤں عمائدین کے ساتھ مل کر خود کو ایک قوت میں دوبارہ منظم کرنا شروع کیا۔ وہ 2009 تک دوبارہ منظم ہوچکے تھے۔

مکمل ویڈیو یہاں دیکھیے:

افغان قیادت

افغان فوج کی طرح افغان حکومت اور قیادت میں بھی عوام سے جڑے لوگ نہ ہونے کی وجہ سے حکومتی ڈھانچہ اتنا جلد زمین بوس ہوا کہ امریکی بھی ششدر رہ گئے۔ کسی ایک شخص کو آپ اٹھا کر متنازع الیکشن لڑوا کر شاید صدر تو بنا سکتے ہیں لیکن عوامی شخصیت نہیں۔

کابل انتظامیہ میں اکثر اعلیٰ عہدیدار نہ پہلے کوئی مضبوط سیاسی پارٹی رکھتے تھے اور نہ افغان عوام میں کوئی جڑیں۔ اکثر جنگجو سردار ہیں جو اپنے گروپ کے لوگوں میں تو مقبول رہے لیکن عوام کے دلوں تک رسائی حاصل نہ کرسکے۔

حقیقتاً افغانستان میں امریکہ کی محض ایک دو نہیں کئی غلطیاں ہیں، جنہوں نے ان کا بنا بنایا کھیل خراب کیا۔ دراصل امریکیوں نے مکان کی تعمیر چھت سے شروع کی، جسے کھڑا کرنے کے لیے ان کے پاس نہ پاؤں تھے اور نہ ہی ستون۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا