تمام اداروں کو مضبوط بنائے بغیر ترقی ممکن نہیں 

فیڈرل پبلک سروس کمیشن، آڈیٹر جنرل آف پاکستان اور نیب کے مضبوط ہونے کی ایک وجہ ان کے سربراہان کے عہدے پر رہنے کی مقررہ مدت کی گارنٹی ہے جس میں قانون میں ترمیم کے بغیر تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔

اسلام آباد میں جشن آزادی کے موقع پر شہریوں کا جشن (اے ایف پی)

’قومیں کیوں ناکام ہوتی ہیں‘ ایک عالمی شہرت یافتہ کتاب ہے جسے ڈیرن آسیموگلو اور جیمز رابنسن نے لکھا۔  

2012 میں لکھی گئی اس کتاب کو تحقیق اور عنوان سے انصاف کی وجہ سے دنیا بھر میں پذیرائی ملی۔ اس کتاب کا لب لباب یہ ہے کہ کوئی ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک اس کے ادارے مضبوط نہ ہوں۔

پاکستان کی 74 سالہ تاریخ میں ہم نے انہی ادوار میں ترقی کی جب ہمارے اداروں کو مضبوط کیا گیا۔ جن حکومتوں میں ہم نے اداروں کو سیاست زدہ کیا یا ان کے وسائل کو ذاتی فوائد کے لیے استعمال کیا ان میں ملک ترقی کی بجائے تنزلی کا شکار ہوا۔

کسی بھی ادارے کے کمزور یا مستحکم ہونے کا اندازہ چند باتوں سے لگایا جا سکتا ہے۔

ان میں سربراہ کا تعین بہت اہم ہوتا ہے۔ اگر ادارے کا چیف اپنے سیاسی تعلقات کو استعمال کرکے تعینات ہوا ہو تو ایسے شخص کو ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے آسانی سے استعمال کیا جاسکے گا۔ اسے خوف ہو گا کہ اگر اس نے اپنے آقا کے حکم کی تعمیل نہ کی تو کسی بھی وقت اپنے مرتبے یا عہدے سے اتار دیا جائے گا۔ ہمارے ہاں عدلیہ اور فوج اس لیے نسبتاً مضبوط ادارے متصور ہوتے ہیں کیونکہ ان میں سربراہ کے انتخاب کے لیے ذاتی پسند یا نا پسندیدگی زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ عدلیہ کے اعلیٰ ترین جج ہی چیف جسٹس بنیں گے جب کہ فوج کے اعلیٰ ترین جرنیلوں میں سے ہی ایک کا انتخاب کر کے انہیں چیف بنایا جائے گا۔

ادارے کی مضبوطی جانچنے کا دوسرا پیمانہ سربراہ یا ملازمین کی مدت تعیناتی کی گارنٹی پر منحصر ہوتا ہے۔ وہ شخص جس کو معلوم ہو کہ وہ ایک مقررہ مدت سے پہلے ہٹایا نہیں جا سکے گا، ملک و قوم کے مفاد کا زیادہ خیال رکھے گا بہ نسبت ایسے شخص کے جس کو چیف ایگزیکٹو بیک جنبشِ قلم فارغ کرنے کا اختیار رکھتا ہو۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن، آڈیٹر جنرل آف پاکستان اور نیب کے مضبوط ہونے کی ایک وجہ ان کے سربراہان کے عہدے پر رہنے کی مقررہ مدت کی گارنٹی ہے جس میں قانون میں ترمیم کے بغیر تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔ ٹینیور پروٹیکشن کی وجہ سے ایسے لوگ کسی سیاسی سفارش کو اہمیت دینے سے پہلے کئی بار سوچتے ہیں۔

ادارے کی ورک فورس بھی اس کی طاقت یا کمزوری کا سبب بنتی ہے۔ وزیر اعظم آفس، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن وغیرہ اس لیے مضبوط ہیں کیونکہ یہاں دوسرے اداروں کی نسبت تعینات شدہ عملے کی کمی نہیں۔ حکومت پاکستان کے بعض ادارے ایسے بھی ہیں جہاں اپنی مقررہ تعداد سے 20 فیصد تک ملازمین کم ہیں۔ ایسے ادارے جہاں عملہ کم ہوگا وہاں کام کا بوجھ باقی ملازمین پر منتقل ہو جائے گا۔ نتیجتاً کارکردگی میں کمی آجائے گی اور ادارہ خستگی کا شکار ہو جائے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عملے کی تربیت اور متعلقہ امور سے شناسائی بھی ادارے کو کمزور یا طاقتور بنانے میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہیں۔ پولیس کے وہ افسر جو ضمنیاں ٹھیک نہیں لکھتے یا تفتیش درست طرح سے نہیں کر پاتے عدالت جا کر ججز کی جھاڑ سنتے ہیں۔ اس طرح وہ کیس بھی خراب کر بیٹھتے ہیں اور ادارے کا نام بھی بدنام کر دیتے ہیں۔

ادارے کی ترقی یا تنزلی سے منسلک ایک عنصر ملازمین کی بھرتیاں بھی ہے۔ ہائرنگ میرٹ پر ہو تو قابل لوگ آگے آئیں گے۔ وزارت دفاع، انٹیلی جنس بیورو وغیرہ میں بھرتیاں کمیشن کے ذریعے کی گئیں، نہ کہ کسی کا حلقہ انتخاب دیکھ کر۔ سو یہ ادارے مستحکم ہیں۔ پی آئی اے اور پاکستان سٹیل ملز اس لیے برباد ہوگئے کیونکہ ان میں ضرورت سے زیادہ لوگ بھرتی کر لیے گئے جن کا معیار صرف ایک سیاسی جماعت سے وابستگی تھا۔

تنخواہ اور مراعات کی موزونیت اور مہنگائی سے ان کا تناسب ہونا بھی کسی ادارے کے ملازمین کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ موٹروے پولیس اور عام پولیس کا موازنہ کر لیجئے۔ اول الذکر کے بہتر ہونے کی ایک وجہ اس کے ملازمین کی زیادہ تنخواہ اور مراعات بھی ہیں۔ ایک ادارے کا دوسرے سے مراعات میں فرق ہونا ورک فورس کے مورال کو نیچا کرتا ہے اور کرپشن کا جواز فراہم کرتا ہے۔ اسی طرح ملازمین کے ترقی کے طریقہ کار میں جدت نہ ہونے سے بھی ادارے عامیانہ کارکردگی اور جمود کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جب ایک افسر کو معلوم ہو کہ وہ کچھ کرے یا نہ کرے پانچ سال بعد اس نے اگلے گریڈ میں پہنچ ہی جانا ہے تو وہ کیوں کر کام کرے گا؟

چیک اینڈ بیلنس کی موجودگی اور موجود قوانین کے اطلاق کے بارے میں سنجیدگی بھی ادارے کے معیار کا تعین کرتی ہے۔ اگر ایک محکمے میں اپنے ہی بنائے گئے قوانین کا احترام نہیں کیا جاتا تو وہ جلد زوال پذیر ہو جائے گا۔ ہمارے ملک کے زیادہ تر نجی ادارے اس لیے کامیاب ہیں کیونکہ وہاں ہیرا پھیری کرنے والے کو عمومی طور پر دوسرا موقع نہیں دیا جاتا۔ دوسری جانب زیادہ تر سرکاری اداروں میں کرپشن کے کیسز سالہا سال چلتے ہیں اور بعد ازاں عدم پیروی کی بنا پر بند کر دیے جاتے ہیں۔ یوں بدعنوانی کرنے والا شخص باعزت بری ہو کر دوبارہ اسی جگہ نوکری کر رہا ہوتا ہے۔

ایک خیال یہ بھی ہے کہ جس ادارے کے پاس عوام کو تنگ کرنے کا زیادہ اختیار ہوگا وہ زیادہ مضبوط ہوگا۔ ایسا ہرگز نہیں۔ وہ تھانہ جہاں کا ایس ایچ او حکام بالا کو رشوت دے کر تعینات ہوا ہو، کبھی بھی جرائم پر قابو نہ پا سکے گا۔ نتیجتاً وہ افسران کی جھڑکیاں سنے گا، عوام کی لعن طعن برداشت کرے گا اور عدالتوں کے چکر لگاتا رہے گا۔ ایک مثال ریسکیو 1122 کی لیجیئے۔ یہ لوگ صرف خدمت کرتے ہیں اور لوگوں کو تنگ کرنے کا انہیں ذرا بھی اختیار نہیں۔ لیکن 1122 کا شمار پنجاب کے مضبوط ترین اداروں میں ہوتا ہے۔

اوپر بیان کی گئی تمام خصوصیات کے باوجود اگر اداروں میں طاقت کا توازن نہیں ہے تو ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ ادارے چاہے سٹیٹ کے ہوں یا گورنمنٹ کے، ان کے پھلنے پھولنے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں کسی غیر قانونی دباؤ کے بغیر کام کرنے دیا جائے اور اس بات کا خیال رکھا جائے کہ ایک ادارہ دوسرے کے امور میں بے جا مداخلت نہ کرے۔

وزیر اعظم نے چند روز قبل ایک ٹویٹ کے ذریعے بتایا کہ وہ ہائی پاور بورڈ کے اجلاس کو کچھ عرصہ کے لیے ملتوی کر رہے ہیں کیونکہ وہ معمول کے تجزیوں سے ہٹ کر افسران کی حقیقی کارکردگی کا جائزہ لینا چاہتے ہیں۔ یہ بات قابل ستائش ہے اور اداروں میں میرٹ پر ترقی اور پوسٹنگ کی جانب اگلا قدم ہو گی، لیکن وزیراعظم کو ادارہ جاتی اصلاحات کے معاملات کو جلد نمٹانے کے حوالے سے بھی اقدامات کرنے ہوں گے۔ 

انسٹی ٹیوشنل ریفارمز ہی ترقی کے زینے طے کرنے کا ذریعہ ہیں۔ ہم آزادی کے ثمرات بھی اسی صورت میں حاصل کر سکتے ہیں جب سسٹم میں اصلاحات لا کر ہر ادارے کو کام کرنے کا پابند کریں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ