اسرائیل چین دوستی پر امریکی تلملاہٹ

اٹھتے بیٹھتے سی پیک کے گن گانے والوں کو نوید ہو کہ امریکہ اور یورپ کے بعد چین، اسرائیل کا تیسرا بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔

چین نے اسرائیل سے متعلق اپنی سیاسی، معاشی اور عسکری سرگرمیوں کو زیادہ جارحانہ انداز میں آگے بڑھایا ہے (اے ایف پی)

ہمالیہ سے اونچی اور سمندر سے گہری پاکستان چین دوستی کے سحر میں مبتلا قارئین کو شاید اچنبھا ہو کہ چین اور اسرائیل کے درمیان بڑھتے ہوئے اقتصادی تعلقات پر امریکہ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔

اسرائیل کے اندر سے بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ اقتصادی تعلقات کو چین خفیہ طریقے سے فوجی اور سکیورٹی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔

گذشتہ 13 برسوں (2007-2020) کے دوران چین نے اسرائیل میں 19ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہے۔ اس میں نو ارب ڈالرز ٹیکنالوجی اور چھ ارب ڈالرز بنیادی ڈھانچے کے شعبہ میں لگائے گئے۔

دونوں ملکوں کے درمیان سالانہ تجارت بھی 12 ارب ڈالرز سے بڑھ کر 15 ارب ڈالرز تک جا پہنچی ہے۔ اس اضافے سے امریکہ اور یورپ کے بعد چین، اسرائیل کا تیسرا بڑا تجارتی شریک بن گیا ہے۔

تاہم 2018 کے بعد اسرائیل میں چینی سرمایہ کاری کمی واقع ہوئی۔ لیکن چینی طلبہ کو اسرائیل بھجوانے، وہاں کمپنیاں خریدنے کے ساتھ تحقیقی اور ترقیاتی مراکز کے قیام سے چین کی اسرائیلی ٹیکنالوجی میں دلچسپی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

چین نے اسرائیل سے متعلق اپنی سیاسی، معاشی اور عسکری سرگرمیوں کو زیادہ جارحانہ انداز میں آگے بڑھایا ہے۔ بڑے پیمانے پر ٹیکنالوجی کے تبادلے، سیاسی مقاصد کی ترویج کے لیے دی جانے والی معاشی  مراعات اور بیرونی نفوذ کو دیکھتے ہوئے امریکہ نے تل ابیب اور بیجنگ کے درمیان رابطوں کے خطرات بھانپ لیے ہیں۔

امریکہ کو تشویش ہے کہ بیجنگ ڈنکے کی چوٹ اور خفیہ سرکاری اور پرائیویٹ چینلز استعمال کرتے ہوئے اسرائیلی سکیورٹی اور عسکری ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

اسرائیل کے بنیادی ڈھانچے اور ٹیکنالوجی میں بڑھتی ہوئی چینی مداخلت سے واشنگٹن کئی مرتبہ تل ابیب کو خبردار کر چکا ہے۔ ان وارننگز کو بیجنگ کے ساتھ تعلقات استوار کرنے سے اجتناب کی تلقین قرار دیا رہا ہے۔

اسرائیل اور چین کے درمیان تعلقات کی وجہ سے سامنے آنے والے چینلج دراصل واشنگٹن کی بادی النظر میں اختیار کردہ پوزیشن سے بعض اوقات مختلف ہوتے ہیں۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ چین، اسرائیل سے مخصوص ٹیکنالوجی غیر قانونی طریقے سے حاصل کر لے۔

یہ صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ چین کے سائبر حملوں اور جاسوسی کی وارداتوں سے باخبر رہا جائے۔ ان حربوں کو حکومتی، کاروباری، تعلیمی اور سول سوسائٹی کے شعبوں میں بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔

تل ابیب اور بیجنگ تعلقات پر امریکہ کی تشویش اب ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ سی آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل ولیم برنز نے اسرائیلی معیشت میں بڑھتی ہوئی چینی مداخلت پر امریکہ کی تشویش سے اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ کو آگاہ کر دیا ہے۔

انہوں نے ہائی ٹیکنالوجی مارکیٹ اور بنیادی ڈھانچوں کے بڑے منصوبوں میں بھی بیجنگ کے کردار سے صہیونی کار پردازوں کو آگاہ کیا۔

اسرائیلی کابینہ نے صہیونی معاملات میں چینی مداخلت کے بارے میں امریکی وارننگز کو نفتالی بینیٹ کے حالیہ دورہ امریکہ میں صدر جو بائیڈن سے ہونے والی ملاقات کے ایجنڈا کا حصہ بنانے پر مجبور کیا ہے۔

ان ملاقاتوں میں مسٹر بائیڈن کو بتایا جائے گا کہ چین اور اسرائیل کی بڑھتی ہوئی ’انگیجمنٹ‘ پر سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی تشویش میں مبتلا تھے، یہی بات ان کی اس وقت کے اسرائیلی وزیر بن یامین نتن یاہو سے تعلقات میں کشیدگی کا باعث رہی۔

اس کے بعد اسرائیلی انفرا اسٹرکچر کے بھاری بھرکم منصوبوں میں چین کی شراکت دیکھی گئی۔ ان میں حیفہ کے اندر نئی بندرگاہ اور گش ڈین لائٹ ریلوے نمایاں منصوبے ہیں جہاں چین کے فٹ پرنٹس دیکھے جا سکتے ہیں۔

اسرائیل کو اس وقت امریکہ کی دھمکیوں اور چین کے ساتھ اہم منصوبے جاری رکھنے جیسے چینلجوں کا بیک وقت سامنا ہے۔ چین اور امریکہ کے درمیان تناؤ سے آنکھ بچانا بھی اسرائیل کے لیے سر دست ممکن نہیں ہے۔

تل ابیب کو دونوں عالمی طاقتوں میں کسی ایک کے انتخاب جیسی مشکل صورت حال کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، یہ چناؤ آسان نہیں کیونکہ تل ابیب دونوں سے ہی تعلقات کا خواہاں ہے۔

اسلحہ کی صنعت میں چین کی غیر معمولی دلچسپی اسرائیل کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔

گذشتہ سال اسرائیل کو شدید امریکی دباؤ کا سامنا رہا کیونکہ پیڑیاٹ میزائلوں سے متعلق حساس ٹیکنالوجی کی متنقلی کی خوف سے امریکہ نے اسرائیل کو مجبور کیا کہ وہ چین کو فوجی جہازوں کی فراہمی کا ایک بڑا سودا منسوخ کر دیں۔

امریکی دفتر خارجہ، پینٹاگان اور خفیہ اداروں کے اعلیٰ حکام نے اسرائیل پر امریکی ٹیکنالوجی چین کو منتقل کرنے کا الزام لگایا تھا۔ امریکی کانگریس نے اس معاملے کی فوجی تحقیقات کی ہدایت کر رکھی ہے۔

چین اور اسرائیل کے درمیان معاشی اور دیگر شعبوں میں استوار تعلقات خراب کرنے کی کوششوں کے باوجود ان میں بڑھوتری دیکھی جا رہی ہے۔

چینی کمپنیوں نے اسرائیل میں انفرا سٹرکچر اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں سرمایہ لگایا جس کے بعد انہیں اسرائیلی بندرگاہوں کی تنظیم اور توسیع میں بنیادی کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔

چین میں اسرائیل کے سابق سفیر جنرل ماتن ویلنی اسی سال اکتوبر میں چینی یونیورسٹی کی ایک شاخ کا افتتاح کرنے والے ہیں جہاں چینی زبان سکھانے کے ساتھ اسرائیل میں چینی طلبہ کے ٹھہرانے کا انتظام بھی کیا جا سکے گا۔

اسرائیلی جانتے ہیں کہ ایسے منصوبے تعلقات میں بہتری کے ساتھ سیاسی اور ثقافتی اثر و رسوخ قائم کرنے کے لیے شروع کیے جاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یاد رہے کہ اسرائیل چین کے ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ منصوبے کا بھی حصہ ہے۔ چینیوں نے اس منصوبے کو اپنے تزویراتی مقاصد سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اس میں معیشت اور جغرافیہ کا جو تڑکہ لگایا ہے اس کے بعد کوئی بھی ملک اس کی مخالفت مول نہیں لے سکتا۔

امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کا بیجنگ سے متعلق بیان اسرائیلیوں کے ذہن میں موجود ہے جس میں انھوں نے ’چین کو امریکہ کے لیے سب سے بڑا چیلنچ‘ قرار دیا تھا۔

صدر جو بائیڈن یورپی رہنماؤں کے ایک اجلاس میں چین کے خلاف متحدہ محاذ تشکیل دینے کی بات کر چکے ہیں، جس کے بعد امریکی صدر کے ایک سیاسی مشیر کا یہ اعلان سامنے آیا کہ ’بیجنگ اگلے 30 برسوں کے اندر دنیا میں امریکہ پر غلبہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔‘

اسرائیل یقیناً چین سے متعلق منفی تجزیے سے شاید اتفاق نہ کرے، تاہم جب تک وہ امریکی خارجہ پالیسی کے اصولوں کا محافظ ہے، اس وقت تک وہ چین سے متعلق اندازوں کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔

بیجنگ کے اسرائیل سے اہم تعلقات کے علی الرغم تل ابیب بہرحال واشنگٹن کا سٹرٹیجک اتحادی ہے اور اس وقت بھی دنیا بھر میں موجود آدھے یہودی، امریکی شہری ہیں۔ اسرائیل کو امریکہ یا چین میں کسی ایک کا چناؤ کرنا پڑا تو یقیناً آخری نقطہ ان کے لیے قول فیصل ثابت ہو گا!

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ