اب ہار کے بعد کیا ایک اور حماقت؟

طالبان کے متعلق تصدیق شدہ حقائق کے باوجود ایک ناکام پالیسی کو لیے مغربی ممالک اور بھارت آگے بڑھتے رہے۔ ہزاروں میل دور سے افغانستان میں اپنے من پسند تجربات کرتے رہے۔

امریکی سابق عہدیدار یہ بھی مان رہے ہیں کہ پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل اشفاق کیانی نے بہت برس پہلے بات چیت کے ذریعے معاملات حل کر کے نکلنے کی اچھی تجویز دی تھی (تصویر: اے ایف پی)

دنیا ایک عجب مخمصے کا شکار دکھائی دیتی ہے - عیاں حقیقت سے آنکھ مچولی کھیلنا ممکن بھی نہیں اور حقیقت کو بغیر حیلے بہانوں کے تسلیم کرنا بھی ابھی گوارہ نہیں۔

سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ کی تیار کردہ تین لاکھ سے زائد فوج طالبان کے سامنے ڈھیر ہو گئی، ان سے مل گئی یا ڈر گئی۔ اس حقیقت سے جو تمام دنیا کے سامنے ہے کہاں چھپا جائے؟ اب تو دنیا کے سامنے یہ موجودہ وقت میں سب نے ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ کہنا کہ اس میں پاکستان کا ہاتھ ہے اور آئی ایس آئی نے اپنا جادو کر کے امریکی تیار کردہ افغان فوج کو طالبان کا مقابلہ کرنے سے روکا اب کہنا شاید نادانی کے مترادف ہو۔

اب تو خود امریکی اور برطانوی جرنیل، فوجی اور گذشتہ دور کے اہلکار اس حقیقت کو بیان کر رہے ہیں کہ اس فوج میں تو دم خم تھا ہی نہیں، نہ کوئی ایمان دار قیادت اور نہ کوئی جنگ کا جواز۔ نہ ہی تربیت صحیح تھی اور نہ ہی ٹرینگ لینے والے نفسیاتی طور پر جنگ کے حامی۔

اب تو کچھ امریکی سابق عہدیدار یہ بھی مان رہے ہیں کہ پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل اشفاق کیانی نے بہت برس پہلے بات چیت کے ذریعے معاملات حل کر کے نکلنے کی اچھی تجویز دی تھی۔

اس فوج کی حقیقت کے ساتھ ہی جس حقیقت کی کھلے عام آخر کار تشہیر شروع ہوئی وہ امریکی تیار کردہ افغان حکومتیں ان کی کرپشن اور عوام کی طرف بے حسی۔ اس بارے میں اب تواتر کے ساتھ کہا جا رہا ہے اور لکھا جا رہا ہے۔ بڑے بڑے نام امریکی اور برطانیہ کے اور افغان خود جو اپنے ممالک میں افغان پالیسی بنا رہے تھے یا افغان حکومت کا حصہ تھے آج تنقید کی لڑیاں بن رہے ہیں۔

اب بتا رہے ہیں کہ کابل کی حکومت ان کا طریقہ کار، ان کا کروڑوں روپے غبن کرنا سب ایک تباہی کا نسخہ تھا چنانچہ اب جو ہوا وہ لازمی ہونا ہی تھا۔ جو کل تک کابل حکومت کی تنقید سے میلوں دور شاید اس کی تعریف میں مصروف تھے آج کچھ اور راگ الاپ رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو شاید امریکہ کی تیار شدہ فوج کی جنگی کارناموں پر بھروسہ کیے بیٹھے تھے۔

بہرحال اب تمام کہی ہوئی باتوں سے یہ تو طے ہے کہ امریکہ کی تیار کردہ حکومت نے کرپشن لوٹ مار اور عوام کے بڑھتے ہوئے مصائب کی وجہ سے چلنا ہی نہیں تھا لیکن پھر بھی بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ یہاں ختم ہو تو پھر سراسر قصور وار وہی ٹھہرے گا جس کی یہ تیار کردہ تباہ کن پالیسی 2001  میں تشکیل دی گئی تھی-  یہ یاد رہے کہ 2001 میں بون میں جب امریکی فوج نے افغانستان پر حملہ کر کہ قبضہ کیا تھا اور پھر جرمنی کے شہر بون میں افغانستان کو چلانے کا بلیو پرنٹ تیار ہو رہا تھا تو پاکستان متعدد مرتبہ یہ کہہ رہا تھا کہ طالبان کی امریکی ہتھیار سے شکست کا مطب یہ ہرگز نہیں کہ طالبان کی سیاسی اور عسکری قوت کا افغانستان سے صفایا ہو گیا ہے۔ لیکن طاقت کے نشے میں کسی نے ایک نہ سنی۔ حامد کرزئی نے اچھے طالبان سے بات کرنے کے ارادے کو واشنگٹن کے ایک اعلی عہدیدار نے فوری طور پر روک دیا تھا۔

اقوام متحدہ کے افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے لخدر ابراہیمی نے بہت برس گزرنے کے بعد جو بون میں موجود تھے طالبان کو شامل نہ کرنے کی بڑی غلطی کو ایک نیویارک ٹائمز کے ایک انٹرویو میں تسلیم کیا تھا اور یہ بھی مانا تھا کہ طالبان کو کچھ حلقوں میں افغانستان میں حمایت حاصل تھی - اس بات کا اعتراف واشنگٹن کے کارنیج انس ٹیٹیوٹ نے اپنی 2009 کی ایک رپورٹ’طالبان وننگ سٹرٹیجی‘ میں کیا۔ اس تفصیلی رپورٹ میں وجو ہات بیان کی گئیں کہ طالبان نے ایک باقاعدہ عام شہریوں کو انصاف دینے، جائیداد کے معملات نمٹائے اور سکیورٹی نافذ کرنے کا انتظام کیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

طالبان کو ہمسایہ ممالک، شروع میں پاکستان اور پھر ایران روس اور چین سے مدد ملتی رہی لیکن سسٹم اپنا اندر افغانستان میں بنایا ، اقوام متحدہ اور ایساف اور کو بھی بھر علاقوں میں اور کچھ بین الاقوامی کاروباری لوگوں بھی سکیورٹی دیتے رہے۔ امریکہ اور ایسا اپنی طالبان کو ہرانے کی اور ختم کرنے کی ایک ضد بھری پالیسی پر قائم رہے۔

بہرحال طالبان کے متعلق تصدیق شدہ حقائق کے باوجود ایک ناکام پالیسی کو لیے مغربی ممالک اور بھارت آگے بڑھتے رہے۔ ہزاروں میل دور سے افغانستان میں اپنے من پسند تجربات کرتے رہے اور ساتھ پاکستان سے یہ توقع کہ جیسے حملہ آور روس کو نکالنے میں مدد کی اسی طرح اب افغانستان کے اپنے شہریوں کی ایک باقاعدہ سیاسی اور عسکری تنظیم کو پاکستان ہرانے میں اور ختم کرنے میں مدد کرتا۔

پاکستان نے اپنے دفاعی مفاد اور علاقائی اور بین الاقوامی حالات کو دیکھ کر مدد کی۔ خطے کے بیشتر ممالک کی طرح پاکستان کے بھی طالبان کے ساتھ تعلقات تھے، ان سے جنگ کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔

لیکن امریکہ اور اس کے اتحادی مسئلے کا حل نہیں طالبان کا خاتمہ چاہتے تھے۔ نتیجہ 15 اگست کو سامنے آ گیا۔

پاکستان کی کوشش خطے کے ان چھ ممالک جن کی سرحدیں افغانستان کے ساتھ ملتی ہیں یہ ہے کہ اب طالبان ایک نمائندہ حکومت بنائیں، صحیح طریقے سے حکومت چلائیں خواتین کو جو اسلام حقوق دیتا ہے وہ دیئے جائیں اور دہشت گردی کی تمام تنظیمیں ختم کرنے کے اجتماعی اقدامات اٹھائے جائیں۔ بہت جلد اس پلان پر کام شروع ہو گا۔

 آنے والے دنوں میں بڑا سوال یہ ہو گا کہ کیا مغربی ممالک اپنی ناکام پالیسی سے سیکھ کر طالبان کے ساتھ مل کر افغانستان کی بہتری کے لیےکام کریں گے یا اپنی ناکامی کی کھلی توہین کا بدلہ طالبان سے ان پرپابندیاں لاگو کر کے لیں گے۔ یہ سراسر حماقت ہو گی۔

اور پھر کیا افغانستان کے اور خطے کے لوگ ایک اور المیہ کی تیاری پکڑیں؟

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ