زیارت: لیویز اہلکاروں کی ہلاکت، لواحقین کا ایف سی کو ہٹانے کا مطالبہ

ضلع زیارت میں گذشتہ ہفتے بارودی سرنگ کے دھماکے میں جان سے جانے والے لیویز اہلکاروں کے اہل خانہ اور علاقہ مکینوں نے خنائی بابا کے قریب زیارت کراس پر دھرنا دے رکھا ہے، جن کا مطالبہ ہے کہ ضلع زیارت سے ایف سی (فرنیٹئر کور) کو ہٹایا جائے۔

مظاہرین نے  حکومتی وفد کو دو دن کا وقت دیا کہ وہ ان کے مطالبات پر فیصلہ کرے اور دھرنے کو شاہراہ سے ہٹاکر قریبی علاقے میں منتقل کردیا گیا، جو اب بھی جاری ہے (تصویر: دھرنا انتظامیہ)

 

بلوچستان کے ضلع زیارت میں گذشتہ ہفتے بارودی سرنگ کے دھماکے میں جان سے جانے والے لیویز اہلکاروں کے اہل خانہ اور علاقہ مکینوں نے خنائی بابا کے قریب زیارت کراس پر دھرنا دے رکھا ہے، جن کا مطالبہ ہے کہ ضلع زیارت سے ایف سی (فرنیٹئر کور) کو ہٹایا جائے۔

جمعرات (26 اگست) کو مانگی ڈیم کے قریب بارودی سرنگ کے دھماکے میں لیویز کی گاڑی تباہ ہوگئی تھی، جس کے نتیجے میں تین اہلکار جان سے گئے اور تین زخمی ہوگئے تھے۔

مظاہرین کے دھرنے کے باعث دونوں اطراف گاڑیوں کی قطاریں لگ گئی تھیں، جس پر ہفتے کے روز صوبائی وزیر داخلہ ضیا لانگو کی سربراہی میں حکومتی وفد نے مظاہرین سے مذکرات کیے۔

مذاکرات کے دوران وفد نے مظاہرین کو بتایا کہ ان کے مطالبات کے حوالے سے اعلیٰ سطح کی کمیٹی قائم کردی گئی ہے، جس میں نواب ایاز جوگیزئی کو مظاہرین کی طرف سے شامل کرلیا گیا ہے۔ انہوں نے شرکا سے دھرنا ختم کرنے اور لاشوں کی تدفین کا مطالبہ کیا۔

مظاہرین نے باہمی مشاورت کے بعد حکومتی وفد کو دو دن کا وقت دیا کہ وہ ان کے مطالبات پر فیصلہ کرے اور دھرنے کو شاہراہ سے ہٹاکر قریبی علاقے میں منتقل کردیا گیا، جو اب بھی جاری ہے۔

اس حوالے سے ضلع زیارت کی رہائشی اور معروف وکیل جمیلہ کاکڑ ایڈووکیٹ، جنہوں نے خود بھی دھرنے میں شرکت کی، انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’مانگی ڈیم پر کام معمول اور بہتر انداز میں چل رہا تھا، اس دوران ایف سی کے اہلکار آئے کہ انہیں ڈیم کی حفاظت پر تعینات کیا گیا ہے۔ اس دوران مزدور اغوا ہوتے ہیں، جس پر ایف سی حکام لیویز کو کہتے ہیں کہ آپ جاکر انہیں بازیاب کروا کرلائیں، جس پر لیویز رسالدار میجر زمان چھ اہلکاروں کے ساتھ ان کے پیچھے جاتے ہیں اور ان کا ساری رات مقابلہ کرتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’جب لیویز اہلکاروں کی گولیاں ختم ہوجاتی ہیں، جو کہ انہیں مخصوص تعداد میں دی جاتی ہیں، تو یہ لوگ واپس گاؤں آجاتے ہیں اور مقامی لوگوں سے گولیاں جمع کرکے واپس جاتے ہیں۔‘

جمیلہ کے مطابق: ’ان لیویز اہلکاروں کی ایف سی اہلکاروں سے تلخ کلامی بھی ہوئی تھی۔‘

جمیلہ کاکڑ نے بتایا کہ دھرنے کے بنیادی مطالبات میں اس وقت یہ سرفہرست ہے کہ علاقے سے ایف سی کا انخلا کیا جائے۔ اس کے علاوہ وہ کوئی بات ماننے کو تیار نہیں ہیں۔

دوسری جانب اس واقعے میں جان سے جانے والے لیویز اہلکار مدثر کے بھائی مزمل نے دھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں ایک بجے اطلاع  ملی کہ لیویز کی گاڑی کے قریب دھماکہ ہوا ہے، جس پر ہم لوگ جائے وقوعہ کی طرف چلے گئے، وہاں ایف سی والے کھڑے تھے جنہوں نے ہمیں آگے جانے نہیں دیا۔‘

مزمل کہتے ہیں کہ ’جب میں اس مقام پر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ دھماکے سے گاڑی مکمل طور پر تباہ ہوگئی تھی اور اہلکاروں کی صرف چادر وغیرہ پڑی تھی۔‘

’پھر میں نے مقامی لوگوں کو فون کرکے بلایا اور ہم نے لیویز اہلکاروں کے لاشوں کے ٹکڑوں کو جمع کرکے وہاں سے اٹھایا۔ اس دوران کوئی حکومتی بندہ ہمارے پاس نہیں آیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دھرنے سے خطاب کے دوران لیویز اہلکار مدثر کے بھائی نے مزید کہا کہ ’ہمارے مطالبات واضح ہیں کہ زیارت اور ہرنائی سے ایف سی  کا انخلا کیا جائے اور ڈپٹی کمشنر کو معطل کرکے ان کے خلاف انکوائری  کی جائے۔ جب تک یہ مطالبات تسلیم نہیں ہوتے ہم اپنی لاشیں نہیں اٹھائیں گے اور نہ ہی تدفین کریں گے۔‘

ادھر مظاہرین سے مذاکرات کے لیے جانے والے صوبائی وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ ایف سی کا شہر سے نکالنا ان کے ’بس‘ میں نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں اعلیٰ سطح کی کمیٹی بنادی گئی ہے، جس میں دھرنے کی طرف سے نواب ایاز جوگیزئی بھی شامل ہیں، جو وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال اور دیگر حکام سے ملاقات کریں گے۔

صوبائی حکومت کی جانب سے تشکیل دی گئی کمیٹی نے دو روز میں فیصلہ دینا ہے، تاہم دھرنے کے شرکا ایف سی کو نکالے جانے کے مطالبے پر ڈٹے ہوئے ہیں، جس سے پیچھے ہٹنے کے لیے وہ تیار نہیں ہیں۔

وزیر داخلہ بلوچستان ضیا لانگو کی طرف سے زیارت دھرنا مظاہرین کے ایف سی کو نکالنے کے مطالبے پر دائرہ اختیار نہ رکھنے کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے وفاقی وزارت داخلہ سے موقف لینے کی کوشش کی اور وزیر داخلہ شیخ رشید کے میڈیا کوآرڈینیٹر علی سے وٹس ایپ پر رابطہ کیا، تاہم انہوں نے پیغام پڑھنے کے باوجود کوئی جواب نہیں دیا۔

واضح رہے کہ اس قبل بلوچستان کے ضلع کیچ میں بھی فرنٹیئر کور کے ایک اہلکار کے ہاتھوں حیات بلوچ نامی نوجوان قتل ہوا تھا۔

بلوچستان میں امن وامان کی خراب صورت حال کے باعث صوبائی حکومت نے فرنٹیئر کور کو تعینات کرکے پولیس کے اختیارات بھی دے رکھے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان