پاکستان کے صوبہ خیبرپختونوا کے صدر مقام پشاور سے شائع ہونے والے انگریزی زبان کے اخبار ’دی فرنٹیئر پوسٹ‘ اور روسی سفارت خانے کے درمیان سخت بیانات کا تبادلہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر چھایا ہوا ہے۔
اسلام آباد میں روسی سفارت خانے کے ایک طویل بیان میں اخبار پر روس مخالف مضامین تسلسل کے ساتھ شائع کرنے پر اسے ’روسوفوبک‘ اور ’امریکینائزڈ‘ قرار دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ’حالیہ دنوں میں اخبار کے بین الاقوامی حصے میں کوئی ایک بھی مضمون ایسا شائع نہیں ہوا جو روس یا اس کی قیادت کو مثبت یا حتیٰ کہ غیرجانبدار انداز میں پیش کرے۔‘
یہ غالباً پاکستان میں پہلی بار ہوا ہے کہ کسی غیرملکی سفارت خانے کی جانب سے کسی میڈیا ادارے پر تنقید اور الزامات عوامی سطح پر لگائے ہیں۔ عموماً سفارت کار نجی رابطوں کے ذریعے ایسے مسائل کا حل مشاورت سے نکالتے ہیں۔
یوکرین میں جنگ کے آغاز کے بعد سے نہ صرف روسی بلکہ کئی یورپی ممالک بھی فیک نیوز کے تدارک کے لیے سرگرم ہیں۔ بعض مبصرین کے خیال میں یوکرین کی جنگ سوشل میڈیا پر پاکستان میں بھی کسی حد تک لڑی جا رہی ہے۔
دوسری جانب فرنٹیئر پوسٹ نے ایک اداریے میں روسی فیڈریشن کی جانب سے عائد کیے جانے والے الزامات کو ’حیران کن‘ اور ’انکشاف‘ پر مبنی قرار دیا۔ اخبار نے لکھا کہ ’یہ نہ صرف جدید دنیا میں صحافت کے کام کرنے کے بارے میں فرسودہ تفہیم کی بلکہ آزادانہ رپورٹنگ کے بارے میں عدم رواداری کی بھی عکاسی کرتا ہے، جو طاقتور حکومتوں کے مفادات کی خدمت نہیں کرتا ہے - چاہے وہ ماسکو، واشنگٹن یا کہیں اور ہو۔‘
ہم نے انگریزی زبان کے پاکستانی اخبار فرنٹیئر پوسٹ میں شائع ہونے والے روس مخالف مضامین کے سلسلے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کا نوٹس لیا گیا ہے۔ سب سے پہلے ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اس اشاعت کو بمشکل ہی "پاکستانی" کہا جا سکتا ہے، کیونکہ اس کی بین الاقوامی خبروں کی سروس… pic.twitter.com/6vaePgTtqF
— Embassy of Russia in Pakistan (@RusEmbPakistan) November 6, 2025
روسی فیڈریشن نے ایکس پر اپنے بیان میں کہا: ’ہم نے انگریزی زبان کے پاکستانی اخبار فرنٹیئر پوسٹ میں شائع ہونے والے روس مخالف مضامین کے سلسلے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کا نوٹس لیا ہے۔ سب سے پہلے ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اس اشاعت کو بمشکل ہی ’پاکستانی‘ کہا جا سکتا ہے، کیونکہ اس کی بین الاقوامی خبروں کی سروس کا مرکز واشنگٹن میں قائم ہے۔ یہی امریکی رنگ میں رنگی ہوئی ٹیم عالمی خبروں کے انتخاب کی ذمہ دار ہے اور ہمیشہ ان مصنفین کو ترجیح دیتی ہے جو روس مخالف نظریات رکھتے ہیں اور روسی خارجہ پالیسی اور صدر ولادی میر پوتن کے ناقد ہیں۔‘
بیان میں یہ وضاحت تو نہیں کی گئی کہ واشنگٹن میں ان کی کس اخبار کے صحافی کی جانب اشارہ ہے لیکن فرنٹئیر پوسٹ کے مینیجنگ ایڈیٹر جلیل آفریدی وہاں موجود ہیں اور وقتاً فوقتاً وہاں وائٹ ہاؤس کی بریفنگ میں حصہ لیتے رہتے ہیں۔ گذشتہ دنوں ایک تنازعے کی وجہ سے ان کا بیج امریکی حکام نے واپس لے لیا تھا۔
روسی سفارت خانے کا اصرار ہے کہ ’وہ اظہارِ رائے کی آزادی اور اداریے کے اس حق کا احترام کرتے ہیں کہ وہ مختلف آرا رکھنے والے مصنفین کے مضامین شائع کرنے کا اختیار رکھتا ہے، تاہم مغربی پروپیگنڈے سے لبریز اور متبادل مؤقف سے محروم یہ مسلسل روس مخالف مہم اس خیال کو جنم دیتی ہے کہ شاید اداریے کی پالیسی آزادیِ اظہار پر نہیں بلکہ روس مخالف قوتوں کے سیاسی ایجنڈے پر مبنی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ بات بھی باعثِ حیرت ہے کہ وہی اخبار، جس نے افغانستان سے متعلق خبروں کے لیے ایک مکمل حصہ مختص کر رکھا ہے، 7 اکتوبر 2025 کو منعقدہ افغانستان کے بارے میں ماسکو فارمیٹ مشاورت جیسے اہم اجلاس کو مکمل طور پر نظرانداز کر گیا، حالانکہ اسے پاکستانی ذرائع ابلاغ میں بھرپور کوریج ملی۔ یہ طرزِ عمل اخبار کے مغرب زدہ ادارتی عملے کے روس مخالف رجحان کو مزید نمایاں کرتا ہے۔
ان کا یہ اعتراض بھی ہے کہ اخبار ’مغربی پروپیگنڈے کے گھسے پٹے بیانیے جیسے کمزور معیشت، پابندیوں کے سامنے کمزوری اور مغربی ممالک کی فوجی برتری کو دہرا رہا ہے۔ واشنگٹن میں بیٹھے فرنٹیئر پوسٹ کے صحافی حقائق کو مسخ کر کے روس کو ایک ایسے ملک کے طور پر پیش کر رہے ہیں، جو گویا معاشی تباہی کے دہانے پر ہے اور یوں وہ نئی مغربی پابندیوں کے لیے جواز فراہم کر رہے ہیں، جو بالآخر انہی ممالک کی معیشتوں کو نقصان پہنچا رہی ہیں جو یہ پابندیاں عائد کر رہے ہیں۔‘
سفارت خانے نے روسی معیشت سے متعلق اعدادوشمار بھی جاری کیے۔ بیان میں کہا گیا: ’یہ زوال کے دہانے پر کھڑی معیشت کے اعداد و شمار نہیں ہیں۔ روس نے حال ہی میں لامحدود فاصلے تک مار کرنے والے جدید کروز میزائل ’بریویستنک‘ اور بغیر عملے کی کثیرالمقاصد آبدوز ’پوزیڈن‘ کے کامیاب تجربات مکمل کیے ہیں، جو اس حقیقت کا واضح ثبوت ہیں کہ فوجی میدان میں مغربی برتری کے دعوے بے بنیاد ہیں۔‘
روسی سفارت خانے نے پاکستانی عوام سے اپیل کی کہ وہ معلومات مختلف اور معتبر ذرائع سے حاصل کریں اور ان اشاعتی اداروں پر انحصار نہ کریں جو بقول ان کے غیر ملکی سرپرستوں کے مشکوک عزائم کی تکمیل میں مصروف ہیں۔
ایکس پر ایک صارف عبداللہ خان نے اس بیانات کی جنگ سے اخبار کو فائدہ دینے کی بات کی۔
بصد احترام عرض ہے کہ آپ نے یہ ٹویٹ کر کے ایک ایسے اخبار کو غیر معمولی اہمیت دے دی ہے جس اب قصہ ماضی بن چکا تھا۔ اس کی سرکولیشن نہ ہونے کے برابر ہے اور اب یہ ڈمی اخبارات کے زمرے میں شمار ہوتا تھا۔ آپ کی توجہ نے اس کے قد کاٹھ میں بہت اضافہ کر دیا ہے
— Abdullah Khan (@AbdullahKhan333) November 6, 2025
روسی سفارت خانے کی ایکس پوسٹس کے جواب میں 80 کی دہائی میں شروع ہونے والے اخبار ’فرنٹیئر پوسٹ‘ کا کہنا تھا کہ وہ تقریبا ایک دہائی سے واشنگٹن ڈی سی سے فخر کے ساتھ کام کر رہا ہے اور قارئین کو دنیا کے سب سے زیادہ بااثر سیاسی دارالحکومت سے مستند اور براہ راست کوریج تک رسائی فراہم کرتا ہے۔
’ہمارے منیجنگ ایڈیٹر جلیل آفریدی گذشتہ دس سال سے واشنگٹن ڈی سی میں دی فرنٹیئر پوسٹ کے واحد رکن ہیں جہاں وہ وائٹ ہاؤس، پینٹاگون اور محکمہ خارجہ کی کوریج کر رہے ہیں۔ ان کی صحافت نے جنوبی اور وسطی ایشیا میں جمہوریت، انسانی حقوق اور علاقائی سلامتی کے مسائل کو مستقل طور پر اجاگر کیا ہے اور اکثر ایسے سوالات پوچھے جاتے ہیں، جن کا سامنا بہت سے لوگ نہیں کرنا پسند کرتے ہیں۔‘
ادارے میں کہا گیا کہ ’اگر یہ آزادی ہمیں ’مغربی‘ بناتی ہے تو ایسا ہی ہو۔ صحافت کا مشن سفارت خانوں کو خوش کرنا یا سرکاری بیانیوں کی بازگشت نہیں ہے۔ یہ عوام کو آگاہ کرنا، اتھارٹی سے سوال کرنا اور ان لوگوں کو چیلنج کرنا ہے جو سچائی پر اجارہ داری قائم کرنا چاہتے ہیں۔‘
یہ قابل افسوس امر ہے کہ پاکستان میں صحافت کا معیار گر گیا ہے۔ مگر امید کرتے ہیں روس پاکستانی عوام کے روس کے لئے دوستانہ اور مثبت رویہ کا خیال کرے گا۔ پاکستانی عوام نے روس اور چین کو کبھی اپنا دشمن نہیں سمجھا۔ روس اور چائنہ کو ہم دوست ممالک سمجھتے ہیں
— PakistanKhan (@PakistaanKhaan) November 7, 2025
انہوں نے ماسکو اجلاس کی خبر کا لنک بھی شیئر کرکے روسی سفارت خانے کے اس الزام کی تردید کی کہ انہوں نے اس اجلاس کی کوریج نہیں کی۔
اخبار کا کہنا ہے کہ ستم ظریفی یہ ہے کہ روسی سفارت خانے کا لہجہ اسی عدم رواداری کی عکاسی کرتا ہے جو انہوں نے امریکی محکمہ خارجہ کے کچھ عہدیداروں کی طرف سے دیکھا ہے، جہاں صحافیوں کو بھی مشکل سوالات پوچھنے پر سزا دی گئی ہے۔ منیجنگ ایڈیٹر جلیل آفریدی کا محکمہ خارجہ اور اس انتظامیہ کے خلاف مقدمہ، جو اب امریکی ضلعی عدالت میں زیر التوا ہے، تقریبا ایک جیسے مسائل اٹھاتا ہے۔‘