ٹیکنالوجی کمپنی گوگل نے اعلان کیا ہے کہ اس کا مصنوعی ذہانت (اے آئی) کا ٹول جیمنائی اب بہتر جوابات فراہم کرنے کے لیے صارفین کی ای میلز اور نجی دستاویزات تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔
ڈیپ ریسرچ نامی یہ فیچر، جو تمام جیمنائی صارفین کے لیے دستیاب ہے، گذشتہ سال سب سے پہلے خودکار طریقے سے ویب کی ’گہرائی میں براؤزنگ‘ کرنے کے لیے شروع کیا گیا تھا۔ نئی صلاحیتوں کا مطلب ہے کہ اب یہ مصنوعی ذہانت کی ایپ کہیں زیادہ ذاتی اور نجی معلومات تک رسائی حاصل کر سکتی ہے۔
گوگل نے کہا کہ جی میل، ڈرائیو اور چیٹ سے سیاق و سباق حاصل کرنے کی قابلیت جیمنائی کے لیے ’سب سے زیادہ مانگے گئے فیچرز‘ میں سے ایک ہے۔
کمپنی نے بدھ کو ایک بلاگ پوسٹ میں اعلان کیا: ’اس کا مطلب ہے کہ اب آپ ویب کے مختلف ذرائع کے ساتھ ساتھ براہ راست اپنی جی میل، ڈرائیو (جس میں ڈاکس، سلائیڈز، شیٹس اور پی ڈی ایف شامل ہیں) اور گوگل چیٹ سے معلومات لے کر مزید جامع رپورٹس تیار کر سکتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اب آپ ڈیپ ریسرچ کے ذریعے اپنی ٹیم کی ابتدائی برین سٹارمنگ ڈاکس، متعلقہ ای میل تھریڈز اور منصوبے کا تجزیہ کروا کے کسی نئی پروڈکٹ کے لیے مارکیٹ کا تجزیہ شروع کر سکتے ہیں یا آپ کسی حریف پروڈکٹ کے بارے میں ایک ایسی مسابقی رپورٹ بنا سکتے ہیں جو عوامی ویب ڈیٹا کا موازنہ آپ کی حکمت عملیوں، موازنے پر مبنی سپریڈ شیٹس اور ٹیم چیٹس سے کرے۔‘
یہ نیا فیچر، جو خودکار طور پرفعال نہیں ہے، ڈیسک ٹاپ پر جیمنائی کے تمام صارفین کے لیے دستیاب ہے اور آنے والے دنوں میں موبائل صارفین کے لیے بھی فراہم کر دیا جائے گا۔
تازہ ترین اپ ڈیٹ ان نئی خصوصیات کے سلسلے کے بعد آیا ہے، جن کا مقصد گوگل کی اس کی ایپس کے مجموعے میں برتری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اوپن اے آئی کے چیٹ جی پی ٹی اور انتھروپک کے کلوڈ اے آئی جیسے حریفوں کو پیچھے چھوڑنا ہے اور یہ دونوں مکمل طور پر اے آئی کمپنیاں ہیں۔
گوگل سرچ، گوگل میپس، جی میل، کروم اور اینڈروئیڈ کے ذریعے، گوگل آن لائن سرچ، نیوی گیشن، ذاتی ای میل، ویب براؤزنگ اور موبائل آپریٹنگ سسٹمز میں ایک اہم عالمی مارکیٹ شیئر رکھتا ہے۔
ستمبر میں، گوگل نے دنیا کے سب سے زیادہ مقبول ویب براؤزر، کروم میں جیمنائی کو ضم کر کے ’اپنی تاریخ کی سب سے بڑی کروم اپ گریڈ‘ کا اعلان کیا۔
گوگل نے میپس میں ایک نئے جیمنائی ٹول کی بھی نقاب کشائی کی ہے، جسے آنے والے ہفتوں میں متعارف کروائے جانے کی توقع ہے۔
© The Independent