کام فورس کا اور مراعات سول سرونٹ کی؟: ملازمین محکمہ جنگلات

ملازمین کا کہنا ہے کہ وہ گذشتہ کئی سالوں سے وقتاً فوقتاً اپنے حق کے لیے آواز  اٹھاتے رہے ہیں، جس کے نتیجے میں متحرک افراد کو حیلے بہانوں سے ’تنگ‘ کرکے ان کی ’حوصلہ شکنی‘ کی جا رہی ہے۔

ملازمین کا کہنا ہے کہ وہ گذشتہ کئی سالوں سے وقتاً فوقتاً اپنے حق کے لیے آواز  اٹھاتے رہے ہیں (فیس بک/ فارسٹ ڈیپارٹمنٹ خیبر پختونخوا)

خیبر پختونخوا کے محکمہ جنگلات کے ملازمین نے رواں ہفتے صوبائی حکومت سے کہا ہے کہ اگر ان کے مطالبات تسلیم کرتے ہوئے ان سے پچھلے آٹھ سال سے جاری مبینہ امتیازی سلوک ختم نہ کیا گیا تو وہ اس کے خلاف احتجاج کریں گے۔

ملازمین کا کہنا ہے کہ وہ گذشتہ کئی سالوں سے وقتاً فوقتاً اپنے حق کے لیے آواز  اٹھاتے رہے ہیں، جس کے نتیجے میں متحرک افراد کو حیلے بہانوں سے ’تنگ‘ کرکے ان کی ’حوصلہ شکنی‘ کی جا رہی ہے۔

اس حوالے سے ملاکنڈ میں محکمہ جنگلات کے  فارسٹر ممتاز علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تازہ ترین پیشرفت کے مطابق ملازمین نے رواں ہفتے ایک درخواست میں سیکرٹری جنگلات،  وزیر  جنگلات ،  اپوزیشن اور دیگر  تمام وزرا سے صوبہ بھر میں محکمہ جنگلات کے ملازمین کے مسئلے پر غور کرنے کی استداعا کی ہے۔

اس کی تفصیلات بتاتے ہوئے  ممتاز علی کا کہنا تھا کہ 2013  میں خیبر پختونخوا حکومت نے ایک اعلامیہ جاری کیا تھا جس کے تحت  محکمہ جنگلات کے ملازمین کو  باقاعدہ فورس قرار  دیا گیا تھا۔

’بعد ازاں معلوم ہوا کہ ان سے فورس کا کام تو لیا جا رہا ہے لیکن ان کو مراعات فورسز کی نہیں بلکہ ایک سول ملازم جتنی مل رہی ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ صوبہ بھر میں محکمہ جنگلات سے وابستہ دیگر ملازمین کی تمام خصوصی مواقع پر  ’سپیشل ڈیوٹی‘ لگا دی جاتی ہے، ایمرجنسی  میں انہیں حالات قابو کرنے اور ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنے کا حکم ہوتا ہے۔

’جنگلات فورس کے تحت فرائض سرانجام دینے والے کئی ملازمین کہیں ٹمبر مافیا کی فائرنگ تو کہیں آگ لگنے اور  دیگر  ایمرجنسی کے حالات میں جان سے گئے۔‘

ممتاز  علی بتاتے ہیں کہ ’اس سب کے بدلے میں نہ تو تنخواہیں تعلیم اور تجربے کے مطابق ہیں اور  نہ ہی ہمیں مراعات فورسز  والوں کی طرح ملتی ہیں۔‘

’ پولیس فورس میں شامل ایک اہلکارکو  پنشن ملتی ہے۔ دوران ڈیوٹی مر جانے والے اہلکار  کے خاندان کو ایک کروڑ کا پیکج دیا جاتا ہے، بچوں کو  میٹرک تک تعلیمی وظائف دیے جاتے ہیں، خاندان کے ایک فرد کو ملازمت ملتی ہے۔‘

دوسری جانب، محکمہ جنگلات کے ملازمین کا کہنا ہے اگر دوران ڈیوٹی ’انہیں کسی مصیبت کا سامنا ہوجائے یا وفات پا جائیں تو ان کے خاندان کو صرف نو  لاکھ کا پیکج دیا جاتا ہے۔‘

جنوبی وزیرستان فارسٹ ڈویژن دفتر میں بطور  فارسٹ گارڈ ملازمت کرنے والے فخر زمان نےانڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی تعلیم ایم ایس سی ہے اور وہ پچھلے سات سال سے محکمہ جنگلات فورس میں ملازمت کر رہے ہیں، لیکن ان کی تنخواہ اب بھی صرف 30 ہزار ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ ڈیوٹی سرانجام دینے کے لیے ان کے تمام سفری و دیگر اخراجات اسی تنخواہ سے خرچ کیے جاتے ہیں۔

’ہمیں نہ یومیہ اور نہ سفری الاؤنس دستیاب ہے۔ آگ لگنے کی صورت میں ہمارے پاس آلات اور یونیفارم نہیں ہوتے۔ ٹمبر مافیا کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی ہمیں کوئی سہولت دستیاب نہیں۔ پھر بھی کوتاہی کی صورت میں ہمیں سزاوار  ٹھرایا جاتا ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ہر سال ٹیکنیکل و دیگر  معاملات پر صوبہ بھر سے فارسٹ ڈیپارٹمنٹ کے 50 سے زائد اہلکاروں کو مدعو کرکے انہیں بطور فورس تیار کروانے کی تربیت دی جاتی ہے۔

محکمہ جنگلات کے مسائل پر  انڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے رابطہ کرنے پر وزیرِ جنگلات و آبی حیات اشتیاق ارمڑ  نے کوئی دلچسپی نہیں لی اور  بات کرنے سے گریز کیا۔

تاہم جنگلات کے سابق سیکریٹری شاہد اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے  محکمہ جنگلات کی فورس  کے کم وبیش چھ ہزار  اہلکاروں کا مسئلہ توجہ طلب اور حقیقی ہے اور  ان کو حل کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ جس وقت وہ بطور سیکریٹری جنگلات تعینات تھے تو انہوں نے اشتیاق ارمڑ سے اس پر ملاقاتیں کی تھیں اور انہیں بھی اس مسئلے پر ہم خیال پایا تھا۔

’دراصل جب بھی یہ معاملہ محکمہ فنانس کے پاس جاتا ہے، وہ اس پر رضامند نہیں ہوتے اور اس کو دبا دیتے ہیں۔ ان ملازمین کی ملازمت کا دورانیہ 24 گھنٹے ہے۔ یہ دن رات محنت کرتے ہیں، خطرات کا سامنا کرتے ہیں، ان کا مسئلہ ضرور حل ہونا چاہیے۔‘

مطالبات کیا ہیں؟

محکمہ جنگلات کے ملازمین کا کہنا ہے کہ محکمہ جنگلات میں لیبر قوانین اور انسانی حقوق کا ’استحصال‘ کیا جا رہا ہے۔ جہاں ان سے چھٹی، موسم اور ڈیوٹی اوقات کار سے قطع نظر 24 گھنٹے  چوکس رہنے کی توقع کی جاتی ہے، لیکن جب مراعات اور تنخواہوں کی بات آتی ہے تو ان سے سول سرونٹ کا سلوک کیا جاتا ہے۔

انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو مدنظر رکھتے ہوئےحکومت سے مطالبہ کیا کہ ان کے لیے پولیس فورس کے برابر مراعات، بقایاجات سمیت شہدا پیکج کا اجر اکیا جائے۔

دیگر صوبائی محکموں اور فارسٹ فورس ملازمین کی تنخواہوں اور الاؤنسز میں تفاوت ختم کرنے کے لیے فارسٹ ٹیکنیکل الاؤنس کی منظوری دی جائے۔

مزید یہ کہ اگر صوبائی حکومت ان مطالبات کو منظور نہیں کرتی تو نام نہاد فارسٹ فورس ایکٹ 2013 کو ختم کرکے صوبائی سول ملازمین کی طرح جینےکا حق دیا جائے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان