پاکستان نے افغان صوبے پنج شیر میں مبینہ پاکستانی ’مداخلت‘ کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے اسے پروپیگینڈا مہم قرار دیا ہے۔
وزارت داخلہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں ترجمان کا کہنا تھا بین الاقوامی میڈیا کی کچھ خبروں میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے پنچ شیر میں مبینہ پاکستانی ’مداخلت‘ ہو رہی ہے۔
ترجمان نے ایسے تمام الزامات رد کرتے ہوئے کہا کہ یہ پاکستان کے خلاف ایک پروپیگینڈا مہم کا حصہ ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ بھارتی میڈیا کی ’فیک نیوز کو بے نقاب کر دیا گیا ہے‘ اور یہ ’الزامات پاکستان کو بدنام کرنے اور بین الاقوامی برادری کو گمراہ کرنے کی کوشش ہیں۔‘
ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستان افغانستان میں امن اور استحکام اور ترقی کا خواہش مند ہے۔
انخلا کے بعد کابل سے پہلی پرواز
امریکی فوج کے کابل سے ہوائی اڈے سے انخلا کے بعد حامد کرزئی انٹرنیشنل ائیرپورٹ سے 200 مسافروں کے ساتھ پہلی پرواز روانہ ہو گئی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس پرواز میں جانے والے 200 مسافروں میں امریکی شہری بھی شامل ہیں۔ یہ پرواز 30 اگست کو کابل کے ہوائی اڈے سے غیر ملکیوں کے انخلا کے لیے جاری آپریشن کے بعد پہلی پرواز ہے جس میں غیر ملکی شہری سوار ہیں۔
اے ایف پی سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کے مطابق یہ کابل سے پرواز بھرنے والی اس پرواز کی منزل قطر ہے۔
کابل ہوائی اڈا کون چلائے گا؟
کیا چینی فوج افغانستان کے بگرام ہوائی ادے پر منتقل ہونے کی کوشش کر رہی ہے؟ یہ سوال ان دنوں امریکی میڈیا اور سیاسی حلقوں میں بھی اٹھایا جا رہا ہے۔
العربیہ اردو کے مطابق امریکی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ چینی فوج صدر بائیڈن کی انتظامیہ کی افغانستان میں سب سے بڑی امریکی فوجی تنصیب سے دستبرداری کے چند ہفتوں بعد بگرام ہوائی اڈے پر منتقل ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’واشنگٹن فری بیکن اور متعدد ذرائع ابلاغ نے ذرائع کے حوالےسےبتایا کہ چینی فوج امریکہ کی طرف سے خالی کردہ فوجی اڈے بگرام پر فوج تعینات کرنے کی فزیبلٹی کا جائزہ لے رہی ہے۔
یہ ایئربیس بائیڈن انتظامیہ نے جولائی میں افغانستان سے مکمل انخلا سے قبل بند کر دیا تھا۔
تاہم اس حوالے سے بیجنگ کے سینیئر عہدیداروں نے کوئی بات نہیں کی کہ آیا وہ بگرام اڈے پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ البتہ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بن نے کہا کہ میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ یہ جعلی خبر ہے۔
امریکی جرنیلوں اور قانون سازوں نے صدر بائیڈن کو خبردار کیا تھا کہ وہ اس اڈے کو نہ چھوڑیں جو کہ چین کی مغربی سرحد پر سب سے بڑی امریکی تنصیب ہے لیکن صدر بائیڈن انتباہ کے باوجود اس فوجی اڈے کو بھی خالی کر گئے۔
ہاؤس آرمڈ سروسز کمیٹی کے رکن مائیک والٹز نے کہا کہ ’اگر امریکہ بحرالکاہل میں چینی حملوں کی زد میں آتا ہے تو چین کا تائیوان کے اردگرد اپنے بحری اور میزائل اثاثوں پر توجہ مرکوز کرنا دوسرا محاذ ہو گا۔‘
’چین کی سرحد اور روس کی جنوبی سرحد پر واقع اس فوجی اڈے کو خالی کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ بائیڈن انتظامیہ ایران کے مشرقی حصے اور پاکستان کی ایٹمی اور غیر مستحکم سرحدوں کے ساتھ ایک اہم سٹریٹجک قدم چھوڑ دے گی۔‘
سی آئی کے ڈائریکٹر کی پاکستانی فوج کے سربراہ اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹرجنرل سے ملاقات
پاکستانی فوج کے محکمہ تعلقات عامہ کے مطابق امریکی ادارے سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے ڈائریکٹر جوزف بارنز نے پاکستانی فوج کےسربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور انٹر سروسز ایجنسی کے سربراہ لیفٹنٹ جنرل فیض حمید سے ملاقات کی ہے۔
ملاقات کے دوران باہمی دلچسپی کے امور، علاقائی سلامتی اور افغانستان کی تازہ ترین صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
#ٹوئکر
سی آئی اے سربراہ ولیم برنزکی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید سے ملاقات کےدوران افغانستان کی صورتحال پرتبادلہ خیال کیا گیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق سی آئی اے سربراہ نے افغانستان کے بحران میں پاکستان کےکردارکو سراہا۔
تصویر: ISPR pic.twitter.com/r77dEWVlJU
— Independent Urdu (@indyurdu) September 9, 2021
ملاقات میں پاکستانی عہدیداروں نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ وہ افغانستان میں امن و استحکام کے لیے عالمی برادری کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔
پاکستان کے دورے پر آئے امریکی عہدیدار نے افغانستان سے کامیاب انخلا اور علاقائی استحکام کے لیے کردار ادا کرنے پر پاکستان کی تعریف کی۔
کابل سے پروازیں
امریکی حکام کا کہنا ہے طالبان کی نئی حکومت کی رضامندی کے بعد دو سو کے قریب امریکی اور دیگر غیرملکی جو افغانستان میں ہی رہ گئے تھے کو اب خصوصی پروازوں کے ذریعے کابل سے نکالا جا رہا ہے۔
طالبان کی جانب سے کابل کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد یہ پہلی بین الاقوامی پروازیں بھی ہوں گی۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ایک امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ افغانستان میں رہ جانے والے ان افراد کے انخلا کے لیے امریکہ کہ خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے طالبان پر زور ڈالا۔
عہدیدار نے یہ نہیں بتایا کہ آیا یہ امریکی اور غیرملکی ان افراد میں شامل ہیں جو کئی روز سے مزار شریف میں پھنسے ہوئے تھے۔
پاکستان سے سی 130 امدادی سامان لے کر کابل پہنچ گیا
کابل میں واقع پاکستانی سفارت خانے کا کہنا ہے کہ پاکستان سے انسانی بنیادوں پر افغانستان کے لیے امداد کی پہلی کھیپ کابل پہنچ چکی ہے۔
پاکستانی سفارت خانے کے مطابق 30 ٹن امدادی سامان پر مشتمل پہلی کھیپ کابل کے حامد کرزئی بین الااقوامی ہوائی اڈے پر پہنچ چکی ہے اور اسے متعلقہ افغان حکام کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
FIRST TRANCHE OF HUMANITARIAN ASSISTANCE BY PAKISTAN DELIVERED IN KABUL pic.twitter.com/G7MB4AmMEV
— Pakistan Embassy Afghanistan (@PakinAfg) September 9, 2021
پاکستانی سفارت خانے کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جاری کردہ پیغام کے مطابق پاکستان سے افغانستان پہنچنے والی یہ امداد پاکستان کے افغانستان کے لیے سفیر منصور احمد خان نے حاجی عمر صاحب کے حوالے کی جو افغانستان کے وزارت صحت عامہ کے عہدیدار ہیں۔
پیغام کے مطابق پاکستان سے دیگر افغان شہروں جن میں قندھار، خوست اور ہرات شامل ہیں، کے لیے بھی انسانی امداد روانہ کیا جائے گی۔
معزول افغان حکومت کے تاجکستان کے لیے سفیر محمد ظاہر اغبر نے کہا ہے کہ پنج شیری رہنما احمد مسعود اور سابق افغان نائب صدر امر اللہ صالح افغانستان سے نہیں بھاگے اور ان کی مزاحمتی فورسز اب بھی طالبان سے لڑ رہی ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق معزول افغان صدر اشرف غنی کی سابق حکومت کے تحت دوشنبے کے ایلچی ظاہر اغبر نے تاجکستان کے دارالحکومت میں ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ وہ امر اللہ صالح کے ساتھ باقاعدہ رابطے میں ہیں اور مزاحمتی رہنما سکیورٹی وجوہات کی بنا پر عام رابطے نہیں کر رہے۔
اغبر نے کہا: ’میں سمجھتا ہوں کہ فرار کا لفظ مزاحمت کی لغت کا حصہ نہیں ہوتا۔ اگر احمد مسعود اور امر اللہ صالح کو فرار ہونا ہوتا تو وہ پہلے دن ہی فرار ہو جاتے جب ان کے پاس موافق حالات تھے۔‘
’وہ صدر اشرف غنی کی طرح نہیں کیونکہ وہ اپنے لوگوں اور قوم کے لیے زیادہ جذبات رکھتے ہیں۔ میں امر اللہ صالح کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہوں جو اس وقت پنج شیر میں ہیں اور اسلامی جمہوریہ افغانستان کی حکومت چلا رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پنج شیر میں مارشل لا ہے۔ زیادہ تر خاندان گھاٹی چھوڑ کر پہاڑی علاقوں میں منتقل ہو گئے ہیں۔ مزاحمتی محاذ کی فورسز بدستور اپنی پوزیشنز پر ہیں۔‘
ظاہر اغبر نے کہا: ’مجھے یقین ہے کہ بہت جلد طالبان سمجھ جائیں گے کہ پنج شیر کیا ہے۔ میں پرامید ہوں کہ یہ مزاحمت دوسرے صوبوں میں بھی جاری رہے گی۔‘
گذشتہ ماہ اقتدار پر کنٹرول حاصل کرنے والے طالبان نے کہا ہے کہ وہ وادیِ پنج شیر کا مکمل کنٹرول حاصل کرچکے ہیں، تاہم مزاحمتی فورسز کا کہنا ہے کہ لڑائی بدستور جاری ہے۔
دوسری جانب افغان طالبان نے اپنی عبوری کابینہ کا بھی اعلان کردیا ہے۔