افغان پناہ گزینوں کو حکومتی تبدیلی سے نہیں اپنے مسائل سے سروکار

بلوچستان کے علاقے سرانان میں گذشتہ تین دہائیوں سے قائم افغان پناہ گزین کیمپ کے مکینوں کو اپنے وطن میں اقتدار کی تبدیلی سے کوئی سروکار نہیں اور نہ ہی وہ واپس لوٹنا چاہتے ہیں، لیکن یہیں رہتے ہوئے بنیادی سہولتوں کے طلب گار ہیں۔

پانچ ہزار خاندانوں کا سرانان کیمپ 50 ہزار نفوس پر مشتمل ہے (انڈپینڈنٹ اردو)

افغانستان میں 1978 میں ثور انقلاب کے بعد قائم کی گئی کمیونسٹ حکومت کو بچانے کے لیے سویت یونین کی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں، روسی افواج کی آمد کے چند سال بعد ان کے خلاف برسرپیکار مجاہدین کی طاقت میں جب اضافہ ہونے لگا تو جنگ میں تیزی آگئی، جس کے نتیجے میں جنگ کے خوف سے لاکھوں افغان باشندے ہمسایہ ملکوں کی طرف ہجرت کرنے لگے۔ اعدادوشمار کے مطابق نصف کروڑ افغان باشندے پاکستان اور ایران چلے گئے۔

پاکستان ہجرت کرنے والے پناہ گزینوں کی بڑی تعداد بلوچستان میں آج بھی مقیم ہیں، جن میں سب سے زیادہ پناہ گزین افغان سرحد سے 80 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع سرانان افغان کیمپ میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ پانچ ہزار خاندانوں کا سرانان کیمپ 50 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ اگرچہ کیمپ کے بچے گلے میں افغانستان کا قومی جھنڈا (ملی بیرغ) ڈال کر اپنے ملک سے اظہار محبت کرتے ہیں، لیکن بعض، گھروں، مسجدوں اور دکانوں پر امارت اسلامی افغانستان کے جھنڈے بھی لہرا رہے ہیں، تاہم یہاں کے بیشتر مکینوں کا کہنا ہے کہ انھیں افغانستان میں حکومت کی تبدیلی سے نہیں اپنے مسائل سے سروکار ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین یواین ایچ سی آر نے پناہ گزینوں کی فلاح و بہود کے لیے مختلف منصوبوں پر کام کا آغاز کر دیا تھا، جن میں صحت، پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور تعلیم کے منصوبے شامل ہیں، لیکن کیمپ میں مقیم افغان پناہ گزین شکوہ کناں ہیں کہ مقامی غیرسرکاری تنظیموں کے ذریعے جاری تعلیم کے علاوہ صحت اور آبنوشی کے منصوبے اب تعطل کا شکار ہیں اور ان کے بقول منصوبوں پر کام فنڈز کی عدم موجودگی کے باعث روک دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ہزاروں پناہ گزین طبی سہولیات کی عدم موجودگی کے ساتھ ساتھ پانی کے بوند بوند کو بھی ترس رہے ہیں۔

 سرانان میں مقیم پناہ گزینوں میں افغانستان کے شمالی صوبے شبرغان سے تعلق رکھنے والا شہزادہ بھی ہے، جس نے دوسال پشین کے علاقے بند خوشدل خان اور گذشتہ 33 سال سرانان کیمپ میں گزارے ہیں۔

انہوں نے بتایا: ’میں نے 35 سال پاکستان میں گزارے ہیں۔ یہاں ویس تنظیم کے لوگ آتے ہیں، وہ کہتے ہیں ہم پانی کی فراہمی کے لیے کوشش کریں گے، لیکن ابھی تک کچھ نہیں کیا۔ یہاں پانی کا بہت بڑا مسئلہ ہے، سڑک نہیں ہے۔ مہاجرت کی زندگی ہے، کیا کریں۔ پناہ گزین کراچی یا دیگر علاقوں میں جب جاتے ہیں، تو انہیں پی او آر کارڈ ہونے کے باوجود بھی تنگ کیا جاتا ہے۔ یہاں ہسپتال بند ہے، صرف کرونا کی ویکسینیشن کی جاتی ہے۔ اسکول تو فعال ہیں مگر سہولیات کی کمی ہے، کتابیں اور دیگر اشیا دستیاب نہیں۔‘

بلوچستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کی نمائندگی کرنے والے سماجی رہنما 40 سالہ ظاہر پشتون کی پیدائش بھی پشین میں ہوئی۔ افغانستان میں ان کا تعلق سری پل کے علاقے سے ہے۔ ان کے مطابق سرانان کیمپ میں افغان صوبوں جوزجان، فاریاب اور سری پل کے لوگ مقیم ہیں، جو توخی اور اسحاق زئی قبیلوں سے تعلق رکھتے ہیں اور تمام افغان باشندے پشتو زبان بولتے ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’سرانان کیمپ 1987 میں بنا، جہاں پانچ ہزار افغان خاندان (فامیل) آباد ہیں۔ کیمپ میں چلنے والے تعلیم، صحت اور پانی کی فراہمی کے منصوبوں میں سے پانی اور صحت کے پروجیکٹس بند کردیے گئے، جس کی ہم دوبارہ بحالی کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘

ظاہر پشتون نے بتایا کہ بلوچستان میں نوی سرانان، سرخاب، مالگگئی، ژڑکاریز، پوستی، لیجی کاریز، غزگئی مینارہ اور کٹوئی کیمپس میں افغان پناہ گزین آج بھی مقیم ہیں۔ جبکہ 2007 میں حکومت پاکستان کی جانب سے گردی جنگل اور جنگل پیرعلی زئی کیمپس غیررجسٹرڈ قرار دیے گئے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ یواین ایچ سی آر کا تعلیمی پروجیکٹ مقامی تنظیم سوسائٹی کے تحت چل رہا ہے جبکہ خواتین کو ہنر سکھانے کا پروجیکٹ آئی ڈی او کے پاس ہے۔ کیمپ کے پناہ گزین باغات میں مزدوری کرتے ہیں، کراچی میں کاغذ چنتے ہیں، اینٹ کے بھٹوں میں کام کرتے ہیں یا پھر ایران کے راستے غیرقانونی طور پر یورپ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاحال کئی نوجوان سرحد پار کرتے ہوئے سرحدی فورسز کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔

ان کے مطابق پاکستان کے پناہ گزین کیمپوں میں واحد گرلز اسکول سرانان میں موجود ہے۔ کیمپ میں غازی امان اللہ خان لیسہ (ہائی اسکول) کے نام سے چھ اسکول فعال ہیں۔ لیکن طلبہ و طالبات کے لیے کتابیں اور درسی مواد موجود نہیں اور انہیں عرصہ دراز سے افغان نصاب بھی فراہم نہیں کیا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بلوچستان میں موجود افغان پناہ گزینوں کے مسائل کے حوالے سے ایکسٹرنل ریلیشنز ایسوسی ایٹ یو این ایچ سی آر حمیرا کریم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پانی کی قلت کا مسئلہ نہ صرف افغان پناہ گزین بستیوں میں ہے بلکہ پورے بلوچستان میں بارشیں نہ ہونے کے باعث درپیش ہے۔ یواین ایچ سی آر کی جانب سے پانی کا ایک منصوبہ آخری مراحل میں ہے، جس سے پانچ سے چھ سو خاندان مستفید ہوں گے۔

حمیرا کریم کے مطابق: ’ہم ایک متوازی صحت کا پروگرام نہیں چلاسکتے، تاہم سرکاری شعبہ صحت کو موثر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، تاکہ پناہ گزین بھی مستفید ہوں اور میزبان کمیونٹی کا بوجھ بھی کم ہو۔ عنقریب پی پی ایچ آئی کے تعاون سے صحت کے ایک دیرپا منصوبے کے لیے بھی کوششیں جاری ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ یو این ایچ سی آر نے خواتین کی خواندگی، ہنر سکھانے اور روزگار کی فراہمی کے لیے ’سیف فرام دہ سٹارٹ‘ کے نام سے ایک پروگرام کا آغاز کیا ہے، جس کے تحت کوئٹہ کے علاقے ہزارہ ٹاؤن اور غوث آباد میں مراکز قائم کیے گئے ہیں، جہاں خواتین تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ہنر بھی سیکھتی ہیں اور ان کی بنائی ہوئی اشیا کو مارکیٹ تک رسائی ملتی ہے، جس کے عوض انہیں ماہانہ وظیفہ بھی ملتا ہے۔

اسی طرح افغان خواتین کو مرغیاں پالنے اور اسے ذریعہ آمدن بنانے کے لیے بھی ان کی معاونت کی جارہی ہے، تاکہ وہ اپنے کلچر میں رہتے ہوئے کمائی کرسکیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان