جنات کا قید خانہ سمجھے جانے والے ’جہنمی کنویں‘ کی حقیقت کیا ہے؟

عریبک پوسٹ نامی ویب سائٹ نے دعوی کیا ہے کہ سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے یمن میں اس ’جہنمی کویں‘ یا ’جنات کی جیل‘ کو سمجھنے کی کوشش کی ہے جس کی گہرائی 112 میٹر اور چوڑائی 30 میٹر ہے۔

یمن کے مشرق میں برہوت کا کنواں ’جہنمی کنویں‘ کے نام سے مشہور ہے اور اس سے وابستہ کئی دیو مالائی اور شیطانی کہانیاں مشہور ہیں لیکن اب ان کی حقیقت سامنے آگئی ہے۔

یہ جگہ عمان کی سرحد کے قریب اور دارالحکومت صنا سے تقریباً 1300 کلومیٹر دور واقع ہے۔

صوبہ الماہرہ کے صحرا میں واقع 30 میٹر چوڑے اس کنویں کے بارے میں خیال کیاجاتا ہے کہ یہ 100 سے 250 میٹر گہرا ہے۔

مقامی آبادی کے مطابق ’یہ شیطانوں کا قید خانہ ہے جو اپنے قریب ہر چیز کو نگل جاتا ہے اور اس کی تہہ سے تیز بد بو آتی رہتی ہے۔‘

تاہم اب عمان کے غاروں پر تحقیق کرنے و الے ادارے (الفريق العماني لاستكشاف الكهوف) یا عمانی کیونگ کمپنی نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے یمن میں اس ’جہنمی کنویں‘ یا ’جنات کے قید خانے‘ کو سمجھنے کی کوشش کی ہے جس کی گہرائی 112 میٹر اور چوڑائی 30 میٹر ہے۔

ادارے کے مطابق ہفتہ 18 ستمبر 2021 کی شام ایک عمانی سائنسی ٹیم نے غاروں کی کھوج کرتے ہوئے مشرقی یمن کے ریگستانوں میں ایک بڑے کنویں کے اردگرد کے مناظر دیکھے جو خوفناک لوک داستانوں سے وابستہ تھے جنہیں ’جہنم کی تہہ‘ اور ’جنات کا قید خانہ‘ کہا جاتا تھا۔

عمانی غاروں کی کھوج لگانے والی ٹیم نے ہفتہ کی شام ٹوئٹر پر اپنے غیر تصدیق شدہ اکاؤنٹ پر کہا: ’مبینہ خیسف فوگٹ غار یا بارہوت کنویں میں کوئی تحریر نہیں ہے۔‘ انہوں نے یہ بات اس جگہ کے بارے میں مشہور طلسماتی داستانوں کے تناظر میں کہی ہے۔

قدیم تحاریر

غاروں کا کھوج لگانے والی ’عمانی کیونگ ٹیم‘ کا کہنا ہے کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر کنویں کے بارے میں جو تحاریر گردش کر رہی ہیں وہ دراصل ایک اور غار کی ہیں جن کا ملاحظہ ٹیم نے المہرا گورنریٹ (مشرقی یمن) میں اپنے دورے کے دوران کیا تھا اور وہ بہت قدیم عربی تحریریں ہیں۔‘

بارہوت کے کنویں کی تہہ

عمانی کیونگ ٹیم نے انکشاف کیا ہے کہ ’ہم فوگٹ غار کی تہہ تک اترے جسے بارہوت کا کنواں بھی کہا جاتا ہے اور اس سوراخ کی ارضیاتی اور ماحولیاتی خصوصیات کو دستاویزی شکل دی گئی ہے۔ ٹیم گڑھوں اور ان کے ارضیاتی سروے پر ایک تفصیلی رپورٹ آئندہ چند دنوں میں شائع کرے گی۔‘

عمانی ٹیم کے مطابق ’مبینہ کنواں‘ عمانی سرحد سے 33 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور یہ ’جغرافیائی طور پر تحلیل ہوجانے والے گڑھوں کے نام سے جانا جاتا ہے۔‘

عمانی ٹیم کے مطابق: ’اس گہرے سوراخ (کنویں) سے بہت سی افسانوی داستانیں وابستہ ہیں جو مختلف ذرائع ابلاغ میں پھیلی چکی ہیں۔‘

بارہوت کے کنویں کی تہہ میں اترنے کی پچھلی کوششیں

اس سے قبل بھی اس کنویں میں اترنے کی کوششیں کی جا چکی ہیں۔

صوبہ الماہرہ کے ارضیاتی سروے اور معدنی وسائل کے ادارے کے ڈائریکٹر جنرل صلاح بابحر نے بتایا تھا کہ انہیں نہیں معلوم کہ اس کی تہہ میں کیا ہے۔ ’یہ بہت گہرا ہے اور ہم کنویں کی تہہ تک نہیں پہنچ پائے کیوں کہ وہاں آکسیجن بہت کم اور ہوا کا گز نہیں ہے‘۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا تھا: ’جب اس کے اندر اترے تو 50- 60 میٹر کے بعد مزید گہرائی میں جانا ممکن نہ رہا۔ اس کے اندر کافی پر اسرار چیزیں دیکھنے کو ملیں۔ اس کے اندر عجیب سی بدبو بھی آرہی تھی۔‘

جن افراد نے کنویں کے اندرونی مناظر کو کیمرے سے عکس بند کرنے کی کوشش کی تھیں وہ کہتے تھے کہ یہ تقریباً ناممکن ہے۔ مقامی افراد سمجھتے ہیں کہ کنواں اپنے قریب موجود کوئی بھی شے نگل لیتا ہے۔

بارہوت کے کویں سے وابستہ افسانوی کہانیاں

صدیوں سے یہ کہانیاں گردش کر رہی تھیں کہ کنویں کی طرف جانے یا اس کے بارے میں بات کرنے سے بھی بد شگونی ہوتی ہے۔ مقامی آبادی یہ بھی سمجھتی تھی کہ اس کے اندر جن اور بھوت رہتے ہیں۔

یمن 2014 سے خانہ جنگی کا شکار ہے جہاں حوثی باغی حکومت کے خلاف لڑائی میں مصروف ہیں۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ یمن کو دنیا کے بد ترین انسانی بحران کا سامنا ہے جہاں دسیوں ہزار افراد مارے جا چکے ہیں۔ لاکھوں بے گھر ہیں اور اس کی کل آبادی یعنی تین کروڑ کا دو تہائی کسی نہ کسی امداد کا منتظر ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق