’ہمیں کسی بھی مقام پر گولی ماری جا سکتی ہے‘

تاریخی طور پر بدھ مت راہبوں کو میانمار میں ایک اعلیٰ اخلاقی اتھارٹی کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو برادریوں کو منظم کرتے ہیں اور بعض اوقات انہوں نے فوجی حکومتوں کی مخالفت میں تحریک بھی چلائی ہیں۔

ان راہبوں نے آنگ سان سوچی کی سیاسی جماعت کے ارکان سمیت تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے نعرے بھی لگائے(اے ایف پی)

جمہوریت کے حامی بدھ راہب سنیچر کو میانمار میں جنتا (فوجی) حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔

ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر میں فوجی بغاوت کے خلاف یہ مظاہرے اس وقت ہو رہے ہیں جب 14 سال قبل آج ہی کے دن بدھ راہب رہنماؤں کی زیر قیادت اس وقت کی فوجی حکومت کے خلاف ایک بڑا عوامی احتجاج ہوا تھا۔

رواں سال فروری میں فوجی بغاوت کے بعد سے میانمار افراتفری کا شکار ہے جب کہ اس کی معیشت مفلوج ہو چکی ہے۔

فوج نے جمہوریت کی علم بردار سمجھے جانے والی عالمی شہرت یافتہ رہنما آنگ سان سوچی کی سیاسی جماعت کی حکومت کو بے دخل کر دیا تھا۔

بغاوت کے کئی ماہ بعد بھی ملک بھر میں فوج مخالف آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی بلکہ فوج کی جانب سے جمہوریت پسندوں کے خلاف وحشیانہ کریک ڈاؤن سے مزاحمت نے مزید زور پکڑ لیا ہے۔

ایک مقامی غیر سرکاری تنظیم کے مطابق فوج کی جانب سے کیے گئے کریک ڈاؤن میں اب تک 11 سو سے زائد شہری ہلاک اور ساڑھے آٹھ ہزار کے قریب لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

تاریخی طور پر بدھ مت راہبوں کو میانمار میں ایک اعلیٰ اخلاقی اتھارٹی کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو برادریوں کو منظم کرتے ہیں اور بعض اوقات انہوں نے فوجی حکومتوں کی مخالفت میں تحریک بھی چلائی ہیں۔

لیکن حالیہ فوجی بغاوت نے بدھ مت کے ان رہنماؤں کے درمیان تقسیم کو بے نقاب کیا ہے کیوں کہ کچھ ممتاز راہبوں نے جرنیلوں کو آشیرباد دی ہے جب کہ دیگر راہب فوج مخالف مظاہرین کی حمایت کر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہفتے کو درجنوں راہبوں نے اپنے مخصوص مذہبی لباس میں منڈالے شہر کی گلیوں میں جھنڈوں اور بینروں کے ساتھ مارچ کیا اور رنگ برنگے پرچموں کو ہوا میں اچھالا۔

ایک راہب نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’جو راہب سچائی سے محبت کرتے ہیں وہ لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘

ان راہبوں نے آنگ سان سوچی کی سیاسی جماعت کے ارکان سمیت تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے نعرے بھی لگائے۔

ایک 35 سالہ راہب نے اے ایف پی کو بتایا: ’ہمیں احتجاج کرنے کے لیے خطرہ مول لینا پڑتا ہے کیونکہ ہمیں کسی بھی مقام پر گرفتار یا گولی ماری جا سکتی ہے۔ اب ہم اپنی خانقاہوں میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔‘

2007 میں بدھ راہبوں نے سابقہ فوجی جنتا حکومت کے خلاف ملک بھر میں زبردست مظاہروں کی قیادت کی تھی۔

14 سال قبل فوج ایندھن کی قیمتوں میں اچانک اضافے کے بعد جمہوری حکومت کا تخت الٹ کر اقتدار پر قابض ہو گئی تھی۔

’زعفرانی انقلاب‘ کے نام سے مشہور اس تحریک کو بھی وحشیانہ کریک ڈاؤن کے ذریعے دبانے کی کوشش کی گئی اور اس دوران کم از کم 31 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ سینکڑوں راہبوں کو ان کی خانقاہوں سے بے دخل اور گرفتار کر لیا گیا تھا۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا