اقوام متحدہ میں خطاب، بائیڈن کا انتظار

چاہیے تو یہ تھا کہ اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وزیر اعظم اس میں خود شرکت کرتے اور وہاں پر نمایاں امریکی اور عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں کر کے پاکستان کے افغانستان میں کردار پر شکوک و شبہات دور کرتے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نیویارک میں بیلجئم کی  وزیر خارجہ  صوفیہ ولمز  کو چلتے چلتے بھارت کے خلاف ڈوزیئر پیش کرتے ہوئے (پی آئی ڈی)

یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں۔

 

وزیر اعظم عمران خان کے اقوام متحدہ میں اہم خطاب کو مثبت سمجھتے ہوئے بھی کافی باریک بینی سے دیکھا جا رہا ہے۔

یہ ایک پہلے سے ریکارڈ شدہ خطاب تھا جو اقوام متحدہ کے جاری جنرل اسمبلی کے اجلاس میں نشر کیا گیا۔ اس خطاب کی خصوصی بات وزیر اعظم کا ایک لکھے ہوئے مسودے کو پڑھنا تھا۔ عموماً وزیر اعظم اپنے سے پہلے رہنماؤں کو لکھے ہوئے مسودے کو پڑھنے پر ’پرچی وزیر اعظم‘ کا خطاب دیتے رہے ہیں۔

یہ ایک خوشگوار حیرت ہے کہ انہوں نے آخرکار جان لیا کہ پیچیدہ بین الاقوامی تعلقات اور اہم کانفرنسوں میں اپنی عمومی اور سطحی معلومات پر بھروسہ کرنے کی بجائے ایک لکھے ہوئے مسودے پر جس میں  کئی وزارتوں کی آرا، تاریخی حقائق اور تجاویز شامل ہوتی ہیں انحصار بین الاقوامی تعلقات میں ایک تسلسل کو قائم رکھتا ہے۔

انہوں نے اس اچھے بھلے خطاب میں اپنی روایت کے مطابق مختصر دورانیے کے لیے مسودے سے ہٹ کر اپنی بہتر معلومات کا مظاہرہ کیا جو ان کے پچھلے کئی فرمودات کے عین مطابق حقیقت سے کوسوں دور تھا۔ اس غیرضروری انحراف کی وجہ سے انہوں نے حقیقت کے برعکس صدر ریگن کا بیان جو انہوں نے نکاراگوا کے جنگجوؤں کے بارے میں دیا تھا اسے افغان ’مجاہدین کی جدوجہد‘ سے منسوب کر دیا۔ نتیجتاً وزیر اعظم میڈیا میں بجائے اس کے  کہ ان کے خطاب کے اہم اجزا کا جائزہ لیا جاتا ہے، اس غلط بیانی پر مذاق اور شدید تنقید کا نشانہ بنے۔

ان کے چاہنے والے تقریر کے اہم پہلوؤں کا ذکر چھوڑ کر اس بحث میں پڑ گئے کہ یوٹیوب پر ان کی تقریر باقی عالمی رہنماؤں کے مقابلے میں سب سے زیادہ دیکھی گئی اور اس کے دفاع میں اس حقیقت کو بھول گئے کہ جو اہم رہنما نیویارک میں جنرل اسمبلی میں خطاب کر رہے تھے ان کی تقریریں مقامی اور بین الاقوامی میڈیا پر براہ راست دکھائی گئیں۔ اس طرح انہیں لاکھوں لوگوں نے یوٹیوب کی مدد کے بغیر دیکھا۔ ان غیرضروری معاملات میں الجھنے کی وجہ سے خطاب میں شامل اہم موضوعات سے توجہ ہٹ گئی۔

وزیر اعظم نے اپنے پچھلے خطاب کی طرح اس دفعہ بھی مدلل طریقے سے اور پرزور انداز میں کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کی طرف توجہ دلائی۔ ہم اس سالانہ اجلاس میں اس اہم موضوع کی طرف دنیا کی توجہ تو دلاتے ہیں مگر باقی سارے سال اس معاملے میں ہماری سفارت کاری کافی کمزور رہی۔ ہم باقی دنیا کو تو اس مسئلے کی سنجیدگی کا کیا احساس دلاتے، چیدہ چیدہ مسلمان ممالک کو بھی کشمیریوں کی حالت زار اور اس کا اقوام متحدہ میں ذکر کرانے میں بھی ناکام رہے۔

ماسوائے ترکی کے صدر کے کسی بڑے مسلمان ملک نے کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالی اور ان کے حق خودارادی کا ذکر نہیں کیا جبکہ ان اہم اور بڑے مسلمان ممالک نے فلسطین میں جاری مظالم کو یاد رکھا اور ان کے لیے حق خود ارادیت کی بات بھی کی۔ ان ممالک نے دہشت گردی کے سلسلے میں یمن، لیبیا اور افغانستان کی بھی بات کی مگر بھارت کے زیر اتنظام کشمیر میں جاری ریاستی دہشت گردی سے صرف نظر کیا۔

اس مفاہمانہ رویے کی یقیناً وجہ ان ممالک کے بھارت سے گہرے معاشی تعلقات اور شاید بہتر بھارتی سفارت کاری ہو سکتی ہے مگر ہمارے جاذب نظر اور خوش گفتار وزیر اعظم اور وزیر خارجہ نے اپنے شہرہ آفاق سحر کا اس اہم معاملے میں استعمال کیوں نہ کیا؟ وہ کیوں اس اجلاس سے پہلے اہم مسلمان ممالک کے رہنماؤں سے بات کر کے یا ان سے ملاقاتیں کر کے انہیں کشمیر میں جاری المیے کے بارے میں حساسیت پیدا نہ کرا سکے؟

افغانستان کے بارے میں وزیر اعظم نے تقریبا مناسب باتیں کیں مگر وہ بہت سارے ممالک میں پاکستان کے بارے میں اس سلسلے میں پائے جانے والے خدشات میں کمی لانے میں بظاہر ناکام رہے۔ افغانستان کے بارے میں ہماری قیادت یک زبان نہیں ہے۔ مختلف وزرا اپنی مرضی سے بیانات جاری کر رہے ہیں۔ انہیں اس بات کا قدرے احساس نہیں ہے کہ ان کی ہر کہی ہوئی بات کا بین الاقوامی میدان میں باریک بینی سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔

ان بیانات سے جو ایک جشن کی صورت دکھائی دیئے ہم نے کامیابی سے یہ تاثر دیا ہے کہ جیسے امریکی انخلا افغانستان کی عوام کی بجائے حکومت پاکستان کی فتح ہے۔ ان غیر دانشمندانہ بیانات سے امریکی عوام میں یہ تاثر پیدا ہوا ہےکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان امریکہ کی بجائے طالبان کے ساتھ تھا۔

ان امریکی خدشات اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کی بجائے وزیر اعظم کو امریکہ کے ساتھ بہتر تعلقات کی فکر صرف صدر بائیڈن کا ان کو فون کال کرنے تک محدود ہے۔ اب تو یہ فون ایک بین الاقوامی مذاق بن گیا ہے۔ جب وزیراعظم افغانستان میں امریکی انخلا کو غلامی کی زنجیریں ٹوٹنے سے تعبیر کرتے ہیں تو پھر وہ اس فون کال میں کس قسم کا پیغام دیں گے۔

امریکہ سے ہمارے تعلقات اس وقت تیزی سے تنزلی کی طرف رواں ہیں۔ امریکی کانگریس اور مختلف رہنماؤں کے بیانات سے صاف ظاہر ہے کہ پاکستان امریکہ تعلقات میں سب اچھا نہیں ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 چاہیے تو یہ تھا کہ اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وزیر اعظم اس میں خود شرکت کرتے اور وہاں پر نمایاں امریکی اور عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں کر کے پاکستان کے افغانستان میں کردار پر شکوک و شبہات دور کرتے۔ وہ اس دورے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکی میڈیا اور تھنک ٹینک سرکٹ میں پاکستانی موقف کو پیش کرتے۔

اگر امریکی صدر سے ملاقات نہ بھی ہو سکتی تو وہ کانگریس میں اہم قانون سازوں سے ملاقات کر کے پاکستان کے خلاف کسی ممکنہ قانون سازی کا راستہ بند کرنے کی کوشش کر سکتے تھے۔ یہ ایک اہم موقع تھا جس میں بہت ساری غلط فہمیوں کو دور کیا جا سکتا تھا یا انہیں دور کرنے کی کوشش کی جا سکتی تھی لیکن بقول منیر نیازی وزیر اعظم ’ہمیشہ دیر کر دیتے ہیں۔‘

وزیر خارجہ بھی نیویارک میں اپنی موجودگی کے باوجود کچھ خاص کردار ادا کرنے میں ناکام رہے۔ امریکی نظام حکومت میں صدر اور نائب صدر کے بعد وزیر خارجہ کا درجہ آتا ہے اور امریکہ میں دورے پر آئے ہوئے وزرائے خارجہ کو نمایاں پروٹوکول دیا جاتا ہے۔ ان کے لیے کم ازکم نائب صدر سے ملاقات کرنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہونا چاہیے تھا مگر شاید سفارتی سستی کی وجہ سے یہ موقع بھی گنوا دیا گیا۔

بہتر ہوتا اگر موجودہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ہم مکمل تیاری کے ساتھ جاتے۔ وزیر اعظم بھی اس اجلاس میں شرکت کرتے اور اپنے ساتھ ایک موثر ٹیم کو ساتھ لے کر جاتے جو پاکستان کا مقدمہ اچھے طریقے سے پیش کرتے نہ کہ شہریار آفریدی جیسے کردار بھیجے جاتے جو پاکستانیوں کو امریکہ میں پائی جانے والی غربت کے بارے میں اطلاعات فراہم کر رہے تھے۔

 

نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ