عمران خان کی تقریرپربحث:’طالبان نظریہ پشتون قوم پرستی کا نہیں تھا‘

جنرل اسمبلی میں کی گئی وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی تقریر کے جس حصے پر تنقید ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ ’قبائلی اضلاع کے لوگوں نے افغان طالبان کا ساتھ پشتون قوم  پرستی کی بنیاد پر دیا تھا۔‘

عمران خان نے کہا ’قبائلی اضلاع کے لوگوں کی افغان طالبان کے ساتھ ہمدردیاں تھی اور وہ اس لیے نہیں تھیں کہ ان کا مذہبی نظریہ ایک تھا بلکہ پشتون قومیت کی وجہ سے تھیں جو بہت زیادہ مضبوط ہے۔‘(تصویر: اے ایف پی)

وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی اقوام متحدہ جنرل اسمبلی تقریر میں  پشتونوں کے حوالے سے  ایک بیان پر پشتون قوم پرست رہنماؤں کی جانب سے شدید تنقید جاری ہے اور اس بیان کو  ’دہشت گردی کی جنگ میں پشتونوں کی قربانیوں کو نظر انداز کرنے کے مترادف‘ سمجھا جا رہا ہے۔

عمران خان نے اپنی تقریر میں دیگر  مسائل کے علاوہ افغانستان کے موجودہ حالات پر بھی بات کی۔ عمران خان نے افغان طالبان کی بات کرتے ہوئے پہلے ماضی کی چند باتوں کا ذکر کیا کہ کس طرح امریکہ اور پاکستان نے مل کر ’مجاہدین ‘ کا ساتھ دیا تھا۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ ’امریکہ اور  یورپ کے کچھ سیاستدان پاکستان پر الزام تراشی کر رہے ہیں لیکن یہ بات ذہن نشین کرنا چاہیے کہ افغانستان کے حالات کی وجہ سے اگر افغانستان کے علاوہ کوئی دوسرا ملک متاثر ہوا ہے تو وہ پاکستان ہے۔‘

اپنی تقریب انہوں نے مزید کہا کہ ’جب ہم نے 9/11کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیا تو 80 ہزار پاکستان اس میں مارے گئے اور ملک کو 150 ارب ڈالر کا نقصان ہوا اور تیس لاکھ سے زائد پاکستانی بے گھر ہوگئے۔‘

اور یہ سب کچھ وزیر اعظم عمران خان کے مطابق اس لیے ہوا کہ 80 کی دہائی میں پاکستان، افغانستان پر (سوویت یونین کے)  حملے کے خلاف فرنٹ لائن پر تھا، امریکہ اور پاکستان نے مل کر ’مجاہدین‘ گروہوں کو تربیت دی تاکہ وہ ’افغانستان کو آزاد‘ کرنے کے لیے لڑیں۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ 9/11 کے بعد جب امریکی افغانستان میں داخل ہو رہے تھے تو انہیں پاکستان کی ضرورت محسوس ہوئی اور پھر یوں ہوا کہ جو ’ مجاہدین‘ ہم نے ٹرین کیے تھے وہ ہمارے خلاف ہوگئے اور ہمارے خلاف  ’جہاد‘ کا اعلان کیا ۔

عمران خان کی تقریر  کے جس حصے پر تنقید ہو رہی ہے  وہ یہ ہے کہ ’قبائلی اضلاع کے لوگوں نے افغان طالبان کا ساتھ پشتون قوم  پرستی کی بنیاد پر دیا تھا۔‘

عمران خان نے کہا ’قبائلی اضلاع کے لوگوں کی افغان طالبان کے ساتھ ہمدردیاں تھی اور وہ اس لیے نہیں تھیں کہ ان کا مذہبی نظریہ ایک تھا بلکہ پشتون قومیت کی وجہ سے تھیں جو بہت زیادہ مضبوط ہے۔‘

اس کے علاوہ وزیر اعظم پاکستان نے کہا کہ اس وقت 30 لاکھ سے زائد افغان پشتون پناہ گزین پاکستان میں رہتے تھے اور ان تمام کی افغان طالبان کے ساتھ ہمدردیاں تھی۔

’وہ(افغان طالبان) بھی ہمارے خلاف ہوگئے ۔ پہلی مرتبہ ہم نے شدت پسند طالبان کا چہرہ دیکھ لیا اور انھوں نے بھی پاکستانی حکومت کے خلاف محاذ کھول دیا اور جب آرمی پہلی مرتبہ قبائلی اضلاع میں گئی تو وہاں پر کولیٹرل ڈیمیج ہوا جس کی وجہ سے شدت پسندی میں مزید اضافہ ہوا کیونکہ وہ بدلہ لینا چاہتے تھے۔‘

پشتون قوم پرستوں کا عمران خان کی بیان پر  ردعمل  

عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے عمران خان کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’عمران خان کا بیان  گمراہ کن ہے  اور یہ عمران خان کے رجعت پسند ذہن کی عکاسی کرتا ہے۔‘

ایمل ولی نے کہا کہ پشتونوں نے کبھی بھی طالبان کی حمایت نہیں کی بلکہ پشتون طالبان کے سخت نظریے کے متاثرین رہے۔ انھوں نے مزید کہا ’عمران خان نے خود مختلف مواقع پر یہ بتایا ہے کہ دہشت گرد گروہ ریاست نے ڈالرز کے لیے بنائے ہیں ۔ ہمارے رہنماؤں نے ہمیشہ اس کو جہاد نہیں بلکہ فساد کا نام دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ریاست نے ان رہنماؤں پر غداری کے فتوے لگائے ہیں اور ان کو بیرون ملک کے ایجنٹس قرار دیا ہے۔‘

ایمل ولی نے اپنے بیان میں مزید کہا ’ریکارڈ کے لیے یہ بات واضح کر دوں کہ ایک قوم پرست جماعت کی  حیثیت سے  عوامی نیشنل پارٹی  نے ہمیشہ  انتہا پسندی کا مقابلہ کیا ہے اور اسی وجہ سے ہمارے رہنما بشیر بلور، ہارون بلور، میاں افتخار حسین کا بیٹا، عالم زیب،  ڈاکٹر شمشیر اور دیگر ہزاروں رہنماوں  نے اپنی  موقف کے خاطر زندگیوں کی قربانیاں دی ہیں۔‘

’خیبر پختونخوا کی پولیس فورس جس میں زیادہ تر پشتون ہے، نے طالبان کا مقابلہ کیا ہے اور ملک سعد، صفوت غیور  اور ان جیسے بہادر افسران اور سپاہیوں نے جان کے نذرانے  پیش کیے ہیں۔ عمران کے غیر ذمہ دارانہ بیان نے پشتونوں کے  جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے  جو انتہا پسندی سے متاثر ہوئے ہیں۔ عمران خان کا بیان متاثرین کی مشکلات پر ان کو مورد الزام ٹھہرانے کے مترادف ہے۔‘

عمران خان  کے بیان پر پشتون خطے میں لڑی جانے والی ’دہشت گردی کی جنگ‘ کو قریب سے دیکھنے والے صحافیوں اور تجزیہ کاروں نے بھی اپنی آرا پیش کی ہیں  اور ان میں سے بعض کا کہنا ہے کہ عمران خان کو ساری صورتحال قریب سے دیکھنے کا موقع نہیں ملا، یہ یہی وجہ ہے کہ اس قسم کے بیانات سامنے آتے ہیں۔

رفعت اللہ اورکزئی  تقریباً 15 سال تک بی بی سی اردو کے ساتھ بطور رپورٹر کام  کر چکے ہیں اور سوات ، وزیر ستان سمیت خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں ملٹری آپریشن کی کوریج کر چکے ہیں۔ رفعت اللہ اورکزئی نے عمران خان کے بیان پر تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ ’عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ  وہ خود کو ہر چیز کا ماہر سمجھتے ہیں۔‘

’افغان طالبان ہوں یا پاکستانی طالبان،  ان دونوں کا بنیادی نظریہ  اسلامی نظریہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا سے جہادی تنظیمیں یہاں پر آ گئیں اور انھوں نے جہاد شروع کردیا تو اس میں پشتون قوم پرستی کہاں سے آ گئی؟ ایک بات ضرور ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں سے چاہے ازبک ہوں ، تاجک ہوں یا القاعدہ ہوں تو وہ بنیادی طور پر اسلامی نظریے کے ساتھ  آئے تھے اور اس میں پشتون قوم پرستی کا کوئی عنصر  موجود نہیں تھا کیونکہ القاعدہ تو عرب تنظیم تھا تو ان کا پشتون قوم پرستی کے ساتھ کیا تعلق تھا؟‘

رفعت اللہ کا مزید کہنا تھا کہ ’پشتون کلچر کا تو سب سے زیادہ نقصان ہی طالبان کی وجہ سے ہوا ہے چاہے موسیقی ہو یا دیگر  ثقافت، تو ان کو نقصان طالبان کی وجہ سے ہوا ہے۔  پشتون ثقافت میں جرگوں اور جنازوں پر حملے برے سمجھتے جاتے ہیں لیکن طالبان نے جرگوں اور جنازوں  کو بھی حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔‘

تاہم رفعت نے ایک   بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس قسم کی تنظیمیں مذہبی و نسلی بنیاد پر بنائی جاتی ہیں یعنی قبائلی اضلاع میں اگر قبیلے کا سربراہ فیصلہ کرتا ہے تو اس کو تمام قوم کے افراد کی جانب سےعموماً قبول کیا جاتا ہے لیکن جتنی بھی مذہبی تنظیمیں بنی ہیں تو ان کا نظریہ ’جہاد‘ اور اسلام کا ہی تھا۔

رفعت اورکزئی کے مطابق ’2015 میں جب داعش  کا اعلان کیا گیا تو اس کے سربراہ اورکزئی سے تعلق رکھنے  والے حافظ سعید خان تھے اور ان کا تعلق علی خیل قبیلے سے تھا  تو جب  آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد ملٹری آپریشن شروع کیا گیا تب وہ تقریباً 2800 کے لگ بھگ جنگجوؤں کے ساتھ افغانستان چلے گئے اور ان میں زیادہ تعداد اورکزئیوں کی تھی اور زیادہ تر اسی قبیلے سے تھے جس سے حافط سعید خان کا تعلق تھا۔

دوسری بات رفعت کے مطابق یہ ہے کہ ’جب باہر سے ’جہادی ‘ تنظیمیں یہاں آکر آباد ہوئیں تو پشتون روایت کے مطابق ان تنظیموں کے ارکان کو قبائلی اضلاع میں جگہ دی گئی تھی لیکن وہ کبھی بھی پشتون قوم پرستی کی بنیاد پر نہیں تھا کیونکہ جتنی بھی تنظیمیں تھیں ان میں تو زیادہ تر نان پشتون تھے تو کس پشتون قوم پرستی کی بات عمران خان نے کی ہے؟‘

 جیو نیوز کے  اینکر سلیم صافی نے بھی عمران خان کو کچھ تاریخی حوالے دے کر تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔ سلیم صافی نے اپنے ٹویٹر پر لکھا کہ عمران خان نے ایک عالمی فورم پر بیک وقت افغان طالبان اور پشتونوں کی توہین کی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انھوں نے لکھا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے سابق رہنما نیک محمد نے ابتدا میں وزیرستان میں ازبک، عرب، چیچن مجاہدین کو پناہ دی تھی اور انھوں نے آغاز چیف آف وزیرستان ملک فرید اللہ کو مارنے سے کیا  لیکن عمران خان کہتے ہیں کہ پشتونوں نے طالبان کا ساتھ ’پشتون ولی‘ کے نام پر دیا ہے۔

 سلیم صافی نے لکھا ’ افغان اور پاکستانی طالبان کی قربت کی بنیاد پشتون ولی نہیں بلکہ اسلامی جہادی نظریہ تھا۔  کیا اسامہ بن لادن پشتون تھے کہ جس کے خاطر طالبان کی اپنی حکومت (افغانستان میں) قربان کردی ؟ کیا (القاعدہ کے) خالد شیخ محمد  پشتون کے گھر سے نکلے تھے یا راولپنڈی میں ایک پنجابی کے گھر سے؟ کیا رمزی  بن الشیبہ  کراچی میں پشتون کے گھر سے نکلے تھے؟‘

سلیم صافی نے مزید لکھا ہے کہ طالبان کے سب سے بڑےحمایت یافتہ  جنرل حمید گل اورکرنل امام تھے تو  کیا وہ پختون تھے؟ صافی کے مطابق طالبان کی  سب سے بڑی مخالف اے این پی تھی اور کابل پر قبضے کے بعد طالبان نے پہلے پختون ڈاکٹر نجیب کو مارا تھا۔

 سلیم صافی کا کہنا تھا کہ ’ان زمینی حقائق کو جھٹلا کر عمران خان کس بنیاد پر طالبان کی جدوجہد کو پختون ولی سے جوڑ رہے ہیں؟ ٹی ٹی پی نے عمران خان وغیرہ کی طرف کبھی پٹاخہ بھی نہیں پھینکا لیکن پشتون  فضل الرحمان، پختون آفتاب شیرپاؤ، پختون اسفندیار ولی اور پختون امیر مقام پر خودکش حملے کیے۔ سب سے زیادہ رہنما اور کارکن پختون قوم پرست جماعت اے این پی کے مارے گئے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان