پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے حال ہی میں معاشرتی رابطوں کے پلیٹ فارمز پر ڈالے جانے والے مواد پر نظر رکھنے کی غرض سے سوشل میڈیا رولز کے نام سے قواعد و ضوابط متعارف کروائے ہیں۔
وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن امین الحق کے مطابق ان قواعد و ضوابط کا مقصد پاکستانی عوام کے آن لائن ڈیٹا کے علاوہ ان کے سماجی، اخلاقی اور قانونی حقوق کا تحفظ ہے۔
مذکورہ قواعد و ضوابط میں اہم نقطہ سوشل میڈیا کمپنیوں کا پاکستان میں اپنے دفاتر کا قیام اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے پاس رجسٹریشن کروانا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز میں فیس بک، ٹوئیٹر، وٹس ایپ، یو ٹیوب، انسٹا گرام وغیرہ شامل ہیں، جو تمام غیر ملکی ہیں، اور ان میں سے کسی کمپنی نے پاکستان میں اپنے دفاتر قائم نہیں کیے ہیں۔
مذکورہ رولز کے متعارف ہونے کے بعد سے یہ بحث چھڑی گئی ہے کہا کیا بین الاقوامی سوشل میڈیا پاکستان میں دفاتر قائم کریں گی اور پی ٹی اے کے پاس رجسٹریشن کروائیں گی؟
ماہرین کے خیال میں ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آ رہا، اور اس کی سب سے بڑی وجہ ان کمپنیوں کا پاکستان میں بزنس کا باقی دنیا کے مقابلے میں بہت کم ہونا ہے۔
سوشل میڈیا پر کام کرنے والے نجی ادارے بائیٹس فار آل کے سینئیر پروگرام منیجر ہارون بلوچ کا موقف تھا کہ پاکستان کی وفاقی حکومت اس سلسلے میں ایک قدم پیچھے ہٹی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’گذشتہ سال متعارف کروائے گئے سوشل میڈیا رولز میں بین الاقوامی کمپنیوں کے لیے تین ماہ کے اندر پاکستان میں دفاتر کا قیام لازم قرار دیا گیا تھا، جبکہ ان رولز میں ایسا نہیں ہے۔‘
’جمعرات کو اعلان ہونے والے رولز میں حکومت نے کمپنیوں کو چھوٹ دیتے ہوئے ضرورت کی بنیاد پر ایسا کرنے کو کہا گیا ہے۔ تاہم عمومی نمائندگان اور شکایات سے متعلق افسران کی تعیناتی کو لازم قرار دیا گیا ہے۔‘
ہارون بلوچ کے خیال میں بین الاقوامی سوشل میڈیا کمپنیاں پاکستان میں دفاتر قائم کرنے سے متعلق اپنا ایک موقف رکھتی ہیں، جس میں تبدیلی آنے کا امکان کم نظر آتا ہے۔
اس سلسلے میں انہوں نے بھارت کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں حکومتی دباو میں آکر ٹوئٹر نے اپنا دفتر قائم کیا جس پر بعد میں حملہ ہو گیا تھا۔
’ایسی ہی صورت حال پاکستان میں بھی پیش آ سکتی ہے، اور یہ سول سوسائٹی کی اس سلسلے میں سب سے بڑی تشویش ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر پاکستان میں سوشل میڈیا کمپنیاں دفاتر رکھتی ہیں تو ان پر روزانہ چھاپے مارے جانے کے علاوہ انہیں حکومتی ہدایات اور احکامات پر عمل کرنے کے لیے مجبور کیا جا سکتا ہے۔
’ان کمپنیوں نے یہاں دفاتر قائم کر لیے تو انہیں بہت ساری قدغنوں کا سامنا کرنا پڑ جائے گا، اس لیے میرا نہیں خیال کہ وہ ایسا کریں گے۔‘
ہارون بلوچ نے کہا کہ ’ایشیا پیسیفیک میں سوشل میڈیا کمپنیوں کے اتحاد نے گزشتہ سال ہی حکومت پر یہ بار واضح کر دی تھی۔‘
پاکستان میں سوشل میڈیا کے قوانین پر کام کرنے والے اسلام آباد کے ایک وکیل کا کہنا تھا کہ ’ان کمپنیوں نے پاکستان میں دفاتر کھول دئیے تو ان پر حملے ہونا روزانہ کا معمول بن جائے گا۔‘
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے کہا کہ ’مغربی ممالک میں مذہب کی توہین کے واقعات کا ردعمل پاکستان میں سب سے زیادہ دیکھنے میں آیا ہے، جس میں مشتعل ہجوم غیر ملکی کمپنیوں کے دفاتر کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔‘
’حالانکہ ان دفاتر میں پاکستانی کام کرتے تھے اور ان سے فائدہ پاکستان کو ہو رہا تھا، کل کو وہی لوگ فیس بک یا ٹوئیٹر کے دفاتر ہر ہلہ بول دیں گے۔‘
ان کے خیال میں کوئی سوشل میڈیا کمپنی پاکستان میں کسی صورت دفتر قائم نہیں کرے گی اور نہ کسی نمائندے کو بھیجے گی۔
صحافی اور تجزیہ کار بے نظیر شاہ کا کہنا تھا کہ ’حکومتوں کا کام نجی کمپنیوں کو کنٹرول کرنا نہیں بلکہ ان کے کاروبار کے لیے سازگار حالات پیدا کرنا ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ نجی کاروبار کرنے والی کمپنیوں سے حکومتیں بات کر سکتی ہیں، اور یہی پاکستان کو بھی کرنا چاہیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سینئیر صحافی مظہر عباس کے خیال میں نئے قوانین اور ضوابط کے بجائے حکومت کو پہلے سے موجود قوانین پر عمل درآمد کو زیادہ موثر بنانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستانی میڈیا کو بھی اس سلسلے میں ذمہ داری کا ثبوت دینا ہو گا، اور خصوصا سوشل میڈیا سے متعلق ملک میں ایک گریٹ ڈیبیٹ کی ضرورت ہے۔‘
ان کے مطابق ’میڈیا کو نہایت سنجیدگی سے اس مسئلے پر بات چیت کرنے کی ضرورت ہے اور حکومت کو بحث کے نتیجے میں سامنے آنے والی سفارشات پر عمل کرنا چاہیے۔‘
بےنظیر شاہ کا کہنا تھا: ’اکیسویں صدی میں سوشل میڈیا بند تو ہو سکتا ہے لیکن اسے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں حکومتیں کئی مرتبہ کوشش کر چکی ہیں لیکن اس سلسلے میں کامیابی نہیں ہوئی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’مذکورہ ضوابط میں چیزیں اتنی مبہم اور غیر واضح ہیں کہ پی ٹی اے کے اہلکار ان سے کوئی بھی مطلب نکال سکتا ہے، جس کا نقصان سوشل میڈیا اور اس پر کام کرنے والوں کو ہو گا۔‘
بے نظیر شاہ نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی فیس بک پر غیر اخلاقی بات پوسٹ کرتا ہے تو پی ٹی اے سارے ملک میں فیس بک کو ہی بند کر سکتی ہے، جس سے پاکستان میں اس کے پانچ کروڑ صارفین متاثر ہوں گے۔
تاہم صحافی اور تجزیہ کار ارشاد بھٹی کے خیال میں سوشل میڈیا پر ڈالے جانے والے مواد کے سلسلے میں سرخ لکیر کا ہونا بہت ضروری ہے، جو ان پلیٹ فارمز پر نظم پیدا کرنے میں مدد فراہم کرے گی۔