43 ملکوں کا چین سے اویغوروں کے حقوق کا احترام کرنے کا مطالبہ

تشدد، ظالمانہ و غیر انسانی سلوک، جبری نس بندی، جنسی اور صنفی بنیاد پر تشدد اور بچوں کی جبری علیحدگی کے حوالے سے اس اعلامیے پر امریکہ، یورپی ممالک، ایشیائی ریاستوں اور دیگر نے دستخط کیے، جسے چینی سفیر نے ’جھوٹ‘ اور ’بے بنیاد‘ قرار دیا۔

ایک چینی مسلمان ایغور جوڑا  دو  اپریل 2008 کو صوبہ سنکیانگ کے  قصبے کاشغر  میں  سائیکل پر جار رہا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

43 ممالک نے اقوام متحدہ میں چین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سنکیانگ میں مسلم ایغور برادری کے حوالے سے ’قانون کی حکمرانی کا مکمل احترام یقینی بنائے‘، جہاں انسانی حقوق کا احترام ’خاص طور پر‘ تشویشناک ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فرانس نے اقوام متحدہ میں پڑھے گئے ایک مشترکہ بیان میں کہا: ’ہم چین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق اور ان کے دفتر سمیت آزاد مبصرین کو سنکیانگ تک فوری، معنی خیز اور بلا روک ٹوک رسائی کی اجازت دے۔‘

بیان میں مزید کہا گیا: ’ہم خاص طور پر سنکیانگ کے اویغور خودمختار علاقے کی صورت حال کے بارے میں فکر مند ہیں۔‘

تشدد، ظالمانہ و غیر انسانی سلوک، جبری نس بندی، جنسی اور صنفی بنیاد پر تشدد اور بچوں کی جبری علیحدگی کے حوالے سے اس اعلامیے پر امریکہ، یورپی ممالک، ایشیائی ریاستوں اور دیگر نے دستخط کیے، جس میں کہا گیا کہ ’ایغور اور دیگر اقلیتوں کے ارکان کو غیر متناسب طریقے سے ہدف بنائے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔‘

تاہم اقوام متحدہ میں چین کے سفیر ژانگ جون نے اس اعلامیے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’جھوٹ‘ اور ’چین کو نقصان پہنچانے کی سازش‘ قرار دیا۔ وہ ان ’بے بنیاد الزامات‘ کو مسترد کرنے کے لیے تیزی سے آگے آئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ سنکیانگ میں ترقی جاری ہے اور لوگ اپنی ترقی پر فخر کرتے ہیں۔ اس موقع پر انہیں کیوبا کی حمایت حاصل تھی، جس نے چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت پر تنقید کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2019 اور 2020 میں بھی اسی طرح کا اعلامیہ برطانیہ اور جرمنی کی جانب سے سامنے آیا تھا، جسے اس وقت 23 ممالک کی حمایت حاصل تھی اور بعدازاں گذشتہ برس اس کی حمایت کرنے والوں میں 39 ممالک شامل ہوگئے۔ سفارت کاروں کے مطابق اس سال ترکی، ایسواتینی، پرتگال اور جمہوریہ چیک نے بھی ان میں شمولیت اختیار کی۔

دوسری طرف ہیٹی نے اس اعلان کے لیے اپنی حمایت اس وقت ترک کر دی جب چین کے ساتھ اس کے تعلقات پیچیدہ ہو گئے اور پورٹ او پرنس نے تائیوان کو تسلیم کیا۔

سوئٹزرلینڈ نے بھی اعلامیے سے اپنے دستخط ہٹالیے کیونکہ سفارتی ذرائع نے بتایا کہ اس نے حال ہی میں امریکہ اور چین کے درمیان ایک اعلیٰ سطح کی میٹنگ کی میزبانی کی اور دونوں طاقتوں کے درمیان سہولت کار کے طور پر اپنے کردار کو ترجیح دینے کا فیصلہ کیا۔

سفارت کاروں کے مطابق چین ہر سال اقوام متحدہ کے ارکان کو اعلامیے پر دستخط کرنے سے روکنے کے لیے دباؤ بڑھاتا ہے، جس کے لیے وہ کسی ملک میں امن مشن کی تجدید نہ کرنے یا دیگر کو چین میں نیا سفارت خانہ بنانے کی اجازت نہ دینے کی دھمکی دیتا ہے۔

انسانی حقوق کے گروپوں کے مطابق تقریباً 10 لاکھ اویغور مسلمانوں اور مختلف گروپوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو، جن میں سے زیادہ تر مسلمان ہیں، چین کے علاقے سنکیانگ میں قائم حراستی مراکز میں رکھا گیا ہے۔

انسانی حقوق کے گروپوں نے الزام لگایا ہے کہ چینی حکام ان کیمپوں میں قید خواتین کو جبری طور پر بانجھ بنانے اور ان سے جبری مشقت لینے میں ملوث ہیں، تاہم چین ان الزمات کی تردید کرتے ہوئے ان کیمپوں کو ’تربیتی مراکز‘ قرار دیتا ہے۔

یورپی یونین، برطانیہ، کینیڈا اور امریکہ سنکیانگ کی کئی سیاسی شخصیات اور معاشی شعبے کے عہدے داروں پر پابندیاں لگا چکے ہیں۔ ان افراد پر یہ پابندیاں ان پر عائد الزامات کے جواب میں ایک مربوط اقدام کے طور پر لگائی گئیں، جس کے جواب میں بیجنگ نے یورپی یونین اور برطانیہ سے تعلق رکھنے والی شخصیات پر پابندیاں عائد کر دیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا