چارسدہ: افغان شہری کو زندہ جلانے کا واقعہ کیسے پیش آیا؟

 مقتول کو گھر کے اندر جلانے اور بعد میں ان کے گھر کو آگ لگانے کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مشتعل ہجوم ایک گھر کو آگ لگا رہا ہے جب کہ ہجوم کے قریب وردی میں ملبوس پولیس اہلکار بھی نظر آ رہے ہیں۔

وزیر اعلیٰ ہاوس سے جاری ایک بیان میں وزیر اعلٰی نے اپنے مذمتی بیان میں کہا ہے کہ ’واقعے کی شفاف تحقیقات کی جائیں گی اور کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘(اے ایف پی فائل)

چارسدہ کے تھانہ سٹی کے حدود میں گزشتہ روز مشتعل ہجوم کے ایک افغان شہری کے گھر کو آگ لگانے کے واقعے کی ایف آئی آر درج کر لی گئی جب کہ ملزمان کی گرفتاری کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

 پولیس کے مطابق افغان شہری کو اسی آگ میں پھینک کر زندہ جلا دیا گیا تھا ۔جس سے وہ ہلاک جبکہ مقتول کی والدہ آگ سے جھلس کر ہسپتال میں زیرعلاج ہیں۔

افغان شہری جو دونوں پاوں سے معذور بھی تھے، پر اسی دن بکرے چرانے کے تنازع(ابتدائی اطلاعات کے مطابق یہ تنازع کبوتروں پر ہوا تھا) پر اپنے پڑوسی 22سالہ نوجوان کو قتل کرنے کا الزام تھا۔ جس کا مقدمہ اس نوجوان کے والد کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔

چارسدہ سٹی پولیس تھانے کے اہلکار پامیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ زندہ جلائے جانے والے معذور شخص کا ایک پڑوسی نوجوان کے ساتھ تنازع چل رہا تھا اور اسی معذور شخص نے اسی تنازعے میں (جمعے) کو نوجوان کو قتل کیا تھا۔

اہلکار نے بتایا کہ ’قتل کے بعد مقتول نوجوان کے اہل خانہ لاش کو سڑک پر رکھ کر احتجاج کر رہے تھے کہ اتنے میں مشتعل ہجوم نے معذور شخص کے گھر کا محاصرہ کیا اور اس کو آگ لگا دی۔‘

نوجوان کے قتل کے مقدمے میں لکھا گیا ہے کہ ’ملزم سلیمان جو ایک افغان پنا ہ گزین ہیں، نے بکری چرانے کے تنازعے پر میرے بیٹے کو قتل کیا ہے۔‘

مقدمے میں لکھا گیا کہ ’ملزم سلیمان(جن کو زندہ جلایا گیا ہے ) کا میرے بیٹے شہ سوار کے ساتھ بکری چرانے کا تنازعہ تھا۔ سلیمان میرے بیٹے پر ان کا بکرا چوری کرنے کا الزام لگا رہے تھے۔ جس کی وجہ سے وقوعہ کے روز دنوں کے مابین جھگڑا ہوا تھا۔ جس کے بعد ہم راستے پر جا رہے تھے کہ ملزم سلیمان نے اپنے والد کے حکم پر میرے بیٹے کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔‘

افغان شہری سلیمان کو زندہ جلانے کا مقدمہ (جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے) بھی سلیمان کے والدہ اور پولیس کی مدعیت میں درج کر لیا گیا ہے۔

ایف آئی آر کے مطابق سلیمان کی والدہ کا کہنا ہے کہ ’میں اپنے بیٹے سلیمان اور بیٹی کے ساتھ اپنے گھر میں موجود تھی کہ کچھ لوگ گھر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے ہمارے گھر میں داخل ہو گئے۔‘

مقدمے کے مطابق سلیمان کی والدہ کا کہنا ہے کہ ’میں نے اپنے بیٹے کے ساتھ گھر کی بالائی منزل پر مشتعل ہجوم سے پناہ لے لی۔ اسی دوران مشتعل ہجوم نے گھر کے سارے سامان کو آگ لگا دی اور میرے بیٹے کو پکڑ کر اسی آگ میں پھینک دیا اور ساتھ میں مجھے بھی مارا اور آگ میں پھینک دیا لیکن پولیس نے میری جان بچائی ۔‘

سلیمان  کی والدہ نے مزید لکھا ہے کہ ’اسی دوران پولیس کی نفری ہماری مدد کے لیے پہنچی تو مشتعل ہجوم نے پولیس نفری پر بھی ڈنڈوں اور پتھروں سے وار شروع کر دیا۔‘

 تھانہ سٹی کے اہلکار کے مطابق اس واقعے میں مشتعل ہجوم کی جانب سے چار پولیس اہلکار بھی زخمی ہوگئے ہیں جن کو ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔

مقدمے میں زخمی پولیس اہلکاروں نے بھی اپنا بیان ریکارڈ کرا دیا ہے۔ زخمی پولیس اہلکار کے مطابق جب پولیس نفری جائے وقوعہ پر پہنچی تو مشتعل ہجوم نے سلیمان کی گھر کو آگ لگا دی تھی اور ملزمان نے سلیمان اور ان کی والدہ کو آگ میں پھینک دیا تھا۔

 اہلکار کے مطابق جب پولیس نے سلیمان اور ان کی والدہ کو بچانے کی کوشش شروع کی تو مشتعل ہجوم نے قتل کے ارادے سے پولیس اہلکاروں پر ڈنڈوں اور اینٹوں سے حملہ شروع کر دیا۔ تاہم ہم نے بمشکل سلیمان کی لاش اور ان کے والدہ کا آگ سے زندہ نکال کر ان کو ریسکیو کیا۔

مقدمے کے مطابق مشتعل ہجوم کی جانب سے پولیس نفری پر حملے کے نتیجے میں ان کے سر کے بال اور کان بھی جھلس گئے۔ مشتعل ہجوم کے اس فعل کی وجہ سے علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔

پولیس نے مقدمے میں نامزد ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارنے شروع کر دیے ہیں۔

 چارسدہ پولیس کے ترجمان صفیع اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پولیس نے واقعے میں نامز ملزمان میں سے مرکزی ملزم کے والد سمیت 15 افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔

 انھوں نے بتایا کہ ابھی صورتحال یہ ہے کہ اب علاقے کے لوگوں کی جانب سے گرفتار ملزمان کو چھوڑنے کے لیے احتجاج کیا جا رہا ہے۔

 مقتول کو گھر کے اندر جلانے اور بعد میں ان کے گھر کو آگ لگانے کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مشتعل ہجوم ایک گھر کو آگ لگا رہا ہے جب کہ ہجوم کے قریب وردی میں ملبوس پولیس اہلکار بھی نظر آ رہے ہیں۔

ادھر وزیر اعلٰی خیبر پختونخوا نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے انسپکٹر جنرل پولیس سے واقعے کی رپورٹ طلب کر لی ہے ۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزیر اعلیٰ ہاوس سے جاری ایک بیان میں وزیر اعلٰی نے اپنے مذمتی بیان میں کہا ہے کہ ’واقعے کی شفاف تحقیقات کی جائیں گی اور کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘

وزیر اعلٰی کہا کہنا ہے کہ ’پولیس امن و امان اور قانون کی پاسداری کو یقینی بنانے کے لیے ضری اقدامات کرے۔ اہل علاقہ پر امن رہیں اور انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں گے۔‘

چارسدہ کے ایک مقامی صحافی سراج الدین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’دونوں خاندانوں کے مابین یہ تنازع پہلے سے چل رہا تھا اور ایک خاندان دوسرے خاندان کے نوجوان پر کبوتر چوری کرنے کا الزام لگا رہا تھا۔ جس کے نتیجے میں آج زندہ جلائے جانے والے شخص نے طیش میں آکر نوجوان پر فائرنگ کر دی، جس کے نیتجے میں وہ ہلاک ہو گیا۔‘

سراج نے بتایا کہ ’بعد میں مشتعل ہجوم نے معذور شخص کے گھر پر دھاوا بول دیا، اس دوران گھر کے اندر موجود باقی لوگ تو نکل گئے لیکن معذور نوجوان اور ان کی والدہ نے گھر کی چھت پر پناہ لینے کی کوشش کی لیکن ہجوم نے ان کو چھت کے اوپر آگ لگا دی۔ جس کے نیتجے میں معذور شخص جل کر ہلاک اور ان کی والدہ کو زخمی حالت میں پشاور ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان