وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان سعودی عرب کے ساتھ طویل المدتی اور تاریخی تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور ان کو مزید وسعت دینے کا خواہاں ہے۔
سعودی اخبار ’الریاض ڈیلی‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں عمران خان نے پاکستان کی معیشت کو سہارا دینے کے لیے 4.2 ارب ڈالر کی مالی معاونت کے حالیہ اعلان پر مملکت کا شکریہ ادا کیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ ’ان کا ملک دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعلقات کو ایک گہرے، متنوع اور باہمی فوائد کی حامل سٹریٹجک شراکت داری میں تبدیل کرنے کا خواہاں ہے۔‘
ان کے بقول: ’پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی طور پر دیرینہ برادرانہ تعلقات ہیں جن کی جڑیں مشترکہ عقیدے، تاریخ اور باہمی تعاون پر مبنی ہیں۔ دونوں ممالک ہمیشہ قیادت میں تبدیلی کی پرواہ کیے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہے۔ ہمارے پاس ماضی اور عصر حاضر میں علاقائی یا بین الاقوامی پیش رفت کے تناظر میں مملکت سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات کو از سر نو ترتیب دینے کی کوئی وجہ نہیں ہے کیوں کہ دونوں ممالک کے تعلقات وقت کی کسوٹی پر ہمیشہ پورے اترے ہیں۔‘
عمران خان نے مزید کہا: ’دونوں ممالک کے درمیان یہ خاص رشتہ سات دہائیوں پر محیط ہے۔ اب یہ ہماری دلی خواہش ہے کہ اس تعلق کو ایک گہرے، متنوع اور باہمی طور پر فائدہ مند سٹریٹجک شراکت داری میں تبدیل کیا جائے۔ اب ہم تعاون کے نئے اور غیر روایتی شعبوں کی تلاش کے ذریعے تاریخی فوائد کو مستحکم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ہم اپنے بہترین سیاسی تعلقات کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری میں تعاون اور تجارتی تعلقات کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔‘
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے وژن 2030 کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر عمران خان کا کہنا تھا: ’سب سے پہلے میں سعودی قیادت کی طرف سے وژن 2030 کے فریم ورک کے اندر مختلف شعبوں میں کی گئی اصلاحات کی تعریف کرنا چاہوں گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیراعظم پاکستان کے مطابق سعودی عرب کے اپنے حالیہ دورے کے دوران ہم نے سرمایہ کاری کے شعبوں اور مواقع کی تلاش کے ذریعے اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو بڑھانے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا۔ وژن 2030 کے فریم ورک کے اندر اور پاکستان میں ترقی کی ترجیحات سیاسی جغرافیہ سے معاشی جغرافیہ کی طرف منتقل ہو رہی ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: وژن 2030 پاکستان کو ان منصوبوں کی تکمیل میں سعودی عرب کے ساتھ شراکت کے مواقع فراہم کرتا ہے جس میں پاکستان کی افرادی قوت میں حصہ ڈال سکتی ہے اور ہم دیگر شعبوں جیسے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی، انفراسٹرکچر کی ترقی اور زراعت میں بھی اپنی مہارت کا بھی سعودی عرب کے ساتھ اشتراک کر سکتے ہیں۔‘
وزیراعظم نے ’گرین سعودی انشی ایٹو‘ اور ’گرین مڈل ایسٹ انشی ایٹو‘ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ سعودی عرب بلکہ پورے خطے میں ماحولیاتی اور آب و ہوا کے تحفظ کے لیے دو عظیم اقدامات ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی سے اس سیارے کو جو خطرہ لاحق ہے وہ حقیقی ہے اور یہ صحیح سمت میں ٹھوس اقدامات کا وقت ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان بھی ایسے ہی منصوبوں پر کام کر رہا ہے جن میں ’کلین اینڈ گرین پاکستان‘ اور ’دا بلین ٹری سونامی‘ جیسے منصوبے شامل ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اس سلسلے میں ہماری ترجیحات اور اہداف یکجا ہوں گے تاکہ ہم ایک دوسرے سے سیکھ سکیں اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے باہمی تعاون کر سکیں۔‘