پی ٹی آئی حلقہ 133 میں انتخاب لڑ پائے گی؟

پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں حلقہ این اے 133 کے ضمنی انتخابات کی تیاریاں جاری ہیں جہاں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف، اپوزیشن پارٹی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی یہ نشست جیتنے کے لیے کوشاں ہیں۔

الیکشن کمیشن کے شیڈول میں ضمنی الیکشن کا اعلان پانچ دسمبر کو کرانے کا اعلان کیا گیا ہے لیکن سیاسی جماعتوں نے بھرپور مہم کا آغاز کر رکھا ہے (اے ایف پی/ فائل فوٹو)

پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں حلقہ این اے 133 کے ضمنی انتخابات کی تیاریاں جاری ہیں جہاں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف، اپوزیشن پارٹی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی یہ نشست جیتنے کے لیے کوشاں ہیں۔

مسلم لیگ ن کے رہنما پرویز ملک کی وفات کے بعد اس حلقہ میں ضمنی الیکشن ہو رہا ہے جس کے لیے مسلم لیگ ن نے ان کی اہلیہ شائستہ پرویز ملک کو ٹکٹ دیا ہے اور ان کے کاغذات نامزدگی بھی منظور کر لیے گئے ہیں۔

جبکہ پہلے مرحلہ میں پی ٹی آئی کو بڑا دھچکہ اس وقت لگا جب سنیچر کو الیکشن کمیشن نے وزیر اعظم کے سابق مشیر جمشید اقبال چیمہ اور ان کی اہلیہ مسرت جمشید جو کوورنگ امیدوار تھیں کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیے۔

پیپلز پارٹی کی جانب سے امیدوار کے طور پر اسلم گل کو ٹکٹ جاری کیا گیا ہے۔

الیکشن کمیشن کے اعلامیہ کے مطابق ریٹرنگ افسر نے سکروٹنی کے بعد امیدواروں کی فہرست جاری کی تھی جس میں کل 21 امیدواروں نے اس حلقہ سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے جن میں سے 14 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور جبکہ سات کے مسترد کیے گئے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے جمشید اقبال چیمہ اور مسرت جمشید کے علاوہ اکمل خان، رضوان الحق، محمد عظیم، محمد امبر کے کاغذات نامزدگی بھی مسترد کیے گئے ہیں۔

پی ٹی آئی امیدواروں کے کاغذات مسترد ہونے کی وجہ اور بحالی کا کتنا امکان ہے؟

الیکشن کمیشن کے مطابق جمشید اقبال چیمہ اور ان کی بیوی کے کاغذات نامزدگی میں تجویز کنندہ کا ووٹ متعلقہ حلقہ میں درج نہ ہونے کی بنیاد پر مسترد کیے گئے۔

اس بارے میں انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے مسرت جمشید نے کہا کہ ان کے خاوند اور ان کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کی وجہ ان کے تجویز کنندہ کا ووٹ این اے 133 میں درج نہ ہونا ہے جبکہ وہ 50 سال سے اسی حلقہ کے رہائشی ہیں لیکن ان کو اطلاع دیے بغیر ان کا ووٹ کسی اور حلقہ میں درج کر دیا گیا لیکن باقی تمام خاندان کے ووٹ یہیں درج ہیں۔

مسرت جمشید کے مطابق جمشید اقبال چیمہ کے کاغذات نامزدگی کو مسترد کرنے کا فیصلہ ہائیکورٹ میں چیلنج کر رہے ہیں اور اس حوالے سے رٹ تیار کر لی گئی ہے جبکہ تجویز کنندہ کا ووٹ لاعلمی سے کسی اور حلقے میں درج کرنے کے ثبوت بھی موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’دو تین روز میں فیصلہ جمشید اقبال کے کاغذات کی منظوری سے متعلق آنے کی قوی امید ہے۔‘

ان سے پوچھا گیا کہ اگر ان کے کاغذات منظور نہ ہوئے تو پارٹی کے پاس کیا آپشن ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے جواب دیا کہ ابھی اس بارے میں غور نہیں کیا گیا اگر ایسا فیصلہ آتا ہے تو کوئی اور حل نکالیں گے لیکن ہماری پوزیشن کافی بہتر ہے اس لیے میدان ن لیگ کے لیے خالی نہیں چھوڑا جائے گا۔

مسرت جمشید نے اس تاثر کو اپوزیشن کا پروپیگنڈہ قرار دیا جس میں کہا جا رہا ہے کہ شکست کے خوف اور انتخابی اخراجات بچانے کے لیے انہوں نے خود کاغذات نامزدگی مسترد کرانے کا جواز دیا ہے۔

قانون دان عارف بھٹی کے مطابق کاغذات نامزدگی میں تجویز کنندہ امیدوار اپنی مرضی سے شامل کرتے ہیں اس لیے یہ ان کی قانونی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ تائید اور تجویز کنندہ کے ووٹ کا اندراج و دیگر معلومات کی پہلے تصدیق کریں۔

عارف بھٹی کے مطابق ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ ہائیکورٹ نے اس بنیاد پر الیکشن کمیشن کی جانب سے کاغذات مسترد کرنے کا فیصلہ برقرار بھی رکھا ہے اور کالعدم بھی قرار دیا ہے لیکن ہر کیس کی نوعیت مختلف ضرور ہوتی ہے۔

’اگر پی ٹی آئی امیدوار یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ ان کے تجویز کنندہ نے اپنے ووٹ کی تصدیق کرنے کے بعد فارم پر کیے تو ان کے کاغذات منظور ہونا مشکل ہے۔‘

حلقہ کی سیاسی صورتحال

لاہور میں قومی اسمبلی کا حلقہ 133 زیادہ تر نئی اور پوش آبادی پر مشتمل ہے جس میں ماڈل ٹاؤن ایکسٹینشن، ٹاؤن شپ، لیاقت آباد، پنڈی راجپوتاں، اسماعیل نگر، کوٹ لکھپت، چونگی امر سدھو، گرین ٹاؤن اور دیگر علاقے شامل ہیں۔

اس حلقہ کے کل ووٹرز کی تعداد تین لاکھ 71 ہزار چھ سو 76 ہے اور 2018 کے انتخاب میں یہاں مسلم لیگ ن کے امیدوار پرویز ملک 89678 ووٹ لے کر کامیاب جب کہ تحریک انصاف کے اعجاز چودھری نے  77231 ووٹ حاصل کیے تھے۔

اس حلقہ میں عام انتخابات کے دوران ووٹنگ کی شرح 45 فیصد سے بھی کم تھی۔ یہاں عام انتخابات میں صوبائی اسمبلی کے ایک حلقہ سے پی ٹی آئی امیدوار نذیر چوہان بھی کامیاب ہوئے تھے۔

الیکشن کمیشن کے شیڈول میں ضمنی الیکشن کا اعلان پانچ دسمبر کو کرانے کا اعلان کیا گیا ہے لیکن سیاسی جماعتوں نے بھرپور مہم کا آغاز کر رکھا ہے۔

‏دوسری جانب مسرت جمشید نے کا کہنا ہے کہ چند دن پہلے این اے 133 کے حوالے سے تھرڈ پارٹی سروے کرایا گیا ہے جس کے مطابق مسلم لیگ ن کی امیدوار شائستہ پرویز کو 68 فیصد شہریوں نے ناپسند کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ن لیگ کی قیادت کی کرپشن زبان زد عام ہے ہماری کارکردگی پر سوال اٹھانے والے بتائیں تیس سالوں میں انہوں نے عوامی مسائل حل کرنے میں کیا کردار ادا کیا ہے؟‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست