متحدہ عرب امارات میں جاری انٹرنیشنل کرکٹ کونسل مینز ٹی 20کرکٹ ورلڈکپ شروع ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر مختلف لوگ کہہ رہے ہیں کہ افغانستان کرکٹ ٹیم کو ورلڈ کپ میں شامل ہونے کے لیے کوئی سپانسر نہیں ملا اور اسی وجہ سےٹیم کے کپتان محمد نبی نے سارا خرچہ برداشت کیا۔
بھارت اور افغانستان کے مابین کرکٹ میچ میں افغانستان کے ہارنے پر بعض ناقدین یہ الزام بھی عائد کر رہے ہیں کہ سپانسر نہیں ملنے کی وجہ سے افغانستان نے بھارت کے ساتھ فکس میچ کھیلا تاکہ انڈین پریمئر لیگ میں ان کے لیے راستے کھل سکیں۔
بعض سوشل میڈیا صارفین یہ بھی کہتے ہیں کہ افغانستان ٹیم کے پاس کوئی کوچ موجود نہیں ۔
انڈپینڈنٹ اردو نےان تمام دعوؤں کی حقیقت جاننے کے لیے افغانستان کرکٹ بورڈ کے حکام سے بات کرنے کے علاوہ کچھ دیگر مواد کا مطالعہ بھی کیا۔
سب سے پہلے بات کرتے ہیں کہ افغانستان کے پاس کوئی سپانسر نہیں ۔ افغانستان کرکٹ بورڈ کے ترجمان فرید ہوتک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ورلڈ کپ میں جو بھی آئی سی سی ممبر ٹیم حصہ لیتی ہے تو اس کا سارا خرچہ آئی سی سی برداشت کرتا ہے۔
ہوتک نے بتایا،’ افغانستان آئی سی سی کا ممبر ہے اور اسی وجہ سے آئی سی سی نے ہی کرکٹ ٹیم کا خرچہ برداشت کیا جس طرح وہ دیگر ٹیموں کا کرتا ہے۔ ‘
انہوں نے کہا کہ ٹیم کو کوئی معاشی مسئلہ درپیش نہیں ۔ ’آئی سی سی نے ممبر کی حیثیت سے افغانستان کرکٹ ٹیم کی ٹریننگ اور پریکٹس سیشنز ، ہوائی سفر سمیت تمام اخراجات بہت بہتر طریقے سے اٹھائے۔‘
انھوں نے واضح کیا کہ محمد نبی نے ٹیم کو ہرگز سپانسر نہیں کیا۔ہوتک نے مزید بتایا کہ ’صدیقی گروپ ‘ کے نام سے ٹیم کا سپانسر موجود ہے، جس نے ورلڈ کپ کے لیے ٹیم کو سپانسر کیا۔
افغانستان کرکٹ بورڈ نے 14اکتوبر کو اپنے آفیشل فیس بک پیج پر ایک پوسٹ میں بتایا تھا کہ ترک رئیل سٹیٹ کمپنی ’صدیقی گروپ‘ نے ورلڈ کپ میں سپانسر شپ کے حقوق ساڑھے چار لاکھ ڈالر زپر خریدے۔
اسی گروپ کا لوگو افغانستان کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کی کٹ پر دیکھا جا سکتا ہے ۔
افغانستان کرکٹ بورڈجتنی بھی تصاویر یا دیگر مواد سوشل میڈیاپر شیئر کرتا ہے اس پر بھی صدیقی گروپ کا لوگو موجود ہوتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آئی سی سی کے اس وقت 105 رکن ہیں جن میں سے 12 فل رکن جبکہ باقی ایسوسی ایٹ او ربعض ایفلیٹ ہیں۔
افغانستان کو 2017 میں فل ممبر بنایا گیا تھا ۔ آئی سی سی قوانین کے مطابق تمام ممبران کو اپنے کرکٹ امور چلانے کے لیے باقاعدہ فنڈ جاری ہوتے ہیں۔
کرکٹ کے لیے مستند ویب سائٹ cricinfo کی ایک رپورٹ کے مطابق آئی سی سی کے 2017 میں بنائے گئے نئے فنانشل ماڈل کے مطابق 2015 سے 2023تک اشتہارات سمیت دیگر ذرائع سے آنے والی آمدنی کی حجم دو ارب ڈالرز سے زیادہ ہو گا اور اس فنڈ کو ممبرز میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سب سے زیادہ فنڈ(ایک تہائی) بھارتی کرکٹ بورڈ کوتقریباً 405 ملین ڈالر ز ملے گا۔
افغانستان اور آئرلینڈکو 2023 تک تقریباً دو ملین ڈالرز ملیں گے۔
کیا افغان کرکٹ ٹیم کا کوئی کوچ نہیں ؟
افغانستان کرکٹ بورڈ کے مطابق زمبابوے کے سابق کپتان اینڈی فلاور رواں ٹی 20ورلڈ کپ میں افغانستان کی کوچنگ کنسلٹنٹ ہیں ۔ بولنگ کوچ آسٹریلیا کے سابق بولر شان ٹیٹ جبکہ ہیڈ کوچ ساؤتھ افریقہ کے سابق کرکٹر لانس کلوزنر ہیں۔
کلوزنر نے ای ایس پی این کو ایک حالیہ انٹرویو دیتے ہوئے افغانستان کرکٹ ٹیم کی تعریف کی۔
’ میں نے دنیا میں کئی ممالک کی ٹیم کی کوچنگ کی ہے لیکن افغانستان کے کھلاڑیوں نے انتہا درجے کی عزت دی۔ اس ٹیم نے بہت کم وقت میں کرکٹ کی میدان میں اپنا لوہا منوایا ہے۔‘