متحدہ پنجاب کے فوجیوں کا ریکارڈ ایک صدی بعد منظرعام پر

برطانیہ میں قائم یوکے پنجاب ہیریٹیج ایسوسی ایشن (یوکے پی ایچ  اے) کی جانب سے ویب سائٹ پر شائع کیے گئے اس ریکارڈ میں لاکھوں پنجابی فوجیوں کے مکمل کوائف درج کیے گئے ہیں۔

پہلی عالمی جنگ میں حصہ لینے والے 62ویں پنجاب رجمنٹ کے افسران 1914 میں اسماعیلیہ، مصر میں موجود ہیں۔اس رجمنٹ کے کیپٹن کلاڈ آچنلیک بالکل دائیں طرف کھڑے ہیں۔ (فوٹو: پبلک ڈومین)

برطانیہ میں قائم یوکے پنجاب ہیریٹیج ایسوسی ایشن (یوکے پی ایچ  اے) کے مورخین کی جانب سے متحدہ پنجاب سے پہلی عالمی جنگ میں حصہ لینے والے فوجیوں کا ریکارڈ پہلی بار ایک صدی بعد ویب سائٹ کے ذریعے لوگوں کے سامنے پیش کردیا گیا ہے۔

پہلی عالمی جنگ میں دنیا بھر سے شرکت کرنے والے فوجیوں میں سے تین لاکھ 20 ہزار فوجیوں کا تعلق تقسیم برصغیر سے قبل متحدہ پنجاب سے تھا جو قیام پاکستان کے وقت دو حصوں بھارتی اور پاکستانی پنجاب میں تقسیم ہوگئے تھے۔ 

یہ ریکارڈ www.punjabww1.com پر دیکھا جاسکتا ہے، جس میں پنجابی فوجیوں کے مکمل کوائف درج کیے گئے ہیں۔

فوجیوں کا ریکارڈ یو کے تنظیم نے لاہور میوزیم کی لائبریری میں موجود ڈائریز سے بھی حاصل کیا ہے، جو 100 سال سے اس تاریخی ورثے کی ضامن عمارت میں آج تک محفوظ رکھا گیا ہے لیکن اس سے قبل یہ ریکارڈ عوام کے لیے کھلے عام دستیاب نہیں تھا۔

میوزیم حکام کے مطابق پہلی عالمی جنگ میں شرکت کرنے والے پنجابی فوجیوں کا ریکارڈ ہاتھ سے لکھی گئی ڈائریز کے ذریعے محفوظ بنایا گیا ہے اور یوکے تنظیم کو بھی میوزیم انتظامیہ نے ریکارڈ فراہم کیا ہے، جو اب پبلک کیا گیا ہے۔

فوجیوں کا تعلق پنجاب کے کن اضلاع سے تھا؟

11 نومبر کو پوری دنیا میں پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کے دن کے موقع پر شروع کی گئی اس ویب سائٹ پر پنجابی سپاہیوں کے تعاون کے بارے میں معلومات اپ لوڈ کی گئیں۔

یہ معلومات تقریباً 26 ہزار صفحات پر مشتمل ہیں، جن میں تین لاکھ سے زائد انفرادی ناموں کی فہرست شامل ہے، جس میں رجسٹر غیر منقسم پنجاب سے بھرتی ہونے والوں کی جنگی خدمات اور پینشن کے ساتھ ساتھ ان کے خاندانی پس منظر، عہدے اور رجمنٹ کے بارے میں معلومات دی گئی ہیں۔ تقریباً ایک صدی تک بغیر تحقیق کے، یہ رجسٹر پنجاب حکومت نے جنگ کے خاتمے کے بعد 1919 میں مرتب کیے تھے۔

اس میں ایک صدی قبل برٹش انڈین آرمی میں بھرتی کے طریقہ کار کا تفصیلی جائزہ بھی پیش کیا گیا ہے اور انفرادی فوجیوں کے بارے میں معلومات بھی جو ان کے پیشہ ورانہ، سماجی اور سیاسی پس منظر کے بارے میں بصیرت کو ظاہر کرتی ہیں۔

کچھ معاملات میں، وہ فوجیوں کو ملنے والے ایوارڈز اور دور دراز کی جنگی مشقوں کی بھی تفصیل دیتے ہیں، جہاں انہوں نے خدمات انجام دیں اور جہاں سے کم از کم 15 ہزار فوجی واپس نہیں آئے۔

لاہور میوزیم کی ریفرنس اور ریسرچ لائبریری میں پہلی عالمی جنگ میں حصہ لینے والے برطانوی فوج کے سپاہیوں کا ریکارڈ بھی محفوظ ہے کہ کس ضلع سے کتنے سپاہی برطانوی فوج کا حصہ تھے اور ان کا تعلق کس مذہب اور ذات سے تھا۔ یہ سب تفصیلات ہاتھ سے لکھی ہوئی ان 100 سال پرانی ڈائریز میں محفوظ ہیں۔

لائبریری میں برطانوی فوج کے کرنل کمانڈنٹس کی ہاتھ سے لکھی ہوئی ڈائریاں  بھی محفوظ ہیں۔ مشرقی اور مغربی پنجاب کے 20 اضلاع کے فوجیوں کا ریکارڈ 34 جلدوں پر مشتمل ہے۔ لائبریری کے سینیئر لائبریرین بشیر احمد بھٹی کے مطابق اس جنگ میں سب سے زیادہ  97 سو چار سپاہیوں کا تعلق لدھیانہ، اس کے بعد 56 سو 27 سپاہیوں کا تعلق لاہور جب کہ 47 سو 16 سپاہیوں کا تعلق اٹک سے تھا۔

میوزیم کی لائبریری میں اٹک اور لدھیانہ کے فوجیوں کی تفصیلات کی تین تین جلدیں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ حصار، ہشیار پور، جہلم، جالندھر، کانگرہ، شاہ پور، لاہور، گورگن اور روہتک کے سپاہیوں کے ریکارڈ کی دو دو  جلدیں جب کہ امرتسر، فیروزپور، گوجرانوالہ، گجرات، سیالکوٹ، ملتان، کرنال، راولپنڈی، اور گورداسپور کی ایک ایک جلد ہیں۔

اس حوالے سے کام کرنے والے پاکستانی فوج کے میجر ریٹائرڈ ارشد پرویز کی تحریر کے مطابق 1914 سے 1918 تک پہلی عالمی جنگ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والے جن تین سپاہیوں کو سب سے پہلے برطانیہ کا اعلیٰ ایوارڈ ’وکٹوریہ کراس‘ دیا گیا ان میں سے تین کا تعلق موجودہ پاکستان سے تھا۔

ان میں سب سے پہلے صوبے دار خداداد خان تھے، جن کا تعلق بلوچ رجمنٹ سے تھا۔ اس کے بعد دوسرے میر بخت خان بلوچ رجمنٹ اور شاہ احمد خان گوجرخان کے تھے، جنہوں نے فرانس اور بیلجیئم میں لڑی جانے والی جنگ میں حصہ لیا۔ اس ریکارڈ کی وجہ سے ہی سپاہیوں کو پینشن مل سکی اور ہلاک ہونے والوں کے ورثا کو معاوضے مل سکے تھے۔ وکٹوریہ کراس لینے والوں کو 25، 25 ایکڑ زمین عطا کی گئی تھی۔

فوجیوں کا ریکارڈ اب منظر عام پر کیوں لایا گیا؟

یوکے پی ایچ اے کے سربراہ امندیپ مدرا کے مطابق: ’پنجاب پہلی عالمی جنگ کے دوران ہندوستانی فوج کے لیے بھرتی کا اہم میدان تھا، جس نے آسٹریلیا کی طرح اپنا حصہ ڈالا، لیکن عالمی جنگ لڑنے میں اس کی اہمیت کو اس سے پہلے اجاگر نہیں کیا گیا، یہی وجہ ہے کہ پنجابی فوجیوں کی شراکت کو بڑی حد تک تسلیم نہیں کیا گیا اور زیادہ تر معاملات میں ہم ان کے نام تک بھی نہیں جانتے تھے۔‘

انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ’اب تک یکساں طور پر ہم امید کرتے ہیں کہ خدمت کرنے والوں کی اولادیں کچھ خلا کو پُر کر سکتی ہیں اور پنجاب کے تعاون کی ایک بھرپور تصویر بنانے میں ہماری مدد کر سکتی ہیں۔ جنگ اور انفرادی طور پر اس میں حصہ لینے والوں کی مکمل کہانی سنانے میں ان کی یادداشتیں، خاندانی ذخیرہ اور لمحہ فکریہ بہت اہمیت کے حامل ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایسوسی ایشن کے چیئرمین گورادیان نے اس حوالے سے بتایا کہ انہوں نے پہلی بار 2014 میں ان فائلوں کے حوالے سے لاہور میوزیم سے رابطہ کیا تھا، جن کے بارے میں بھارتی فوجی مورخین نے بتایا تھا کہ وہ ان کی موجودگی کے بارے میں جانتے تھے لیکن ان تک رسائی حاصل نہیں ہوئی تھی۔

ان کے بقول: ’ویب سائٹ پر سپاہیوں کے ریکارڈ کو ان کی بھرتی کی جگہ پر لگا دیا گیا ہے، جو ان کی اولاد کو نام، علاقے، رجمنٹ یا یونٹ کے ذریعے سپاہیوں کو تلاش کرنے کے قابل بناتا ہے۔ ریکارڈ کو گاؤں کے نام کی بنیاد پر بھی تلاش کیا جاسکتا ہے جس کی مدد سے صارفین اپنے آباؤ اجداد یا دیگر کو ان کے خاندانی مقام سے تلاش کر سکتے ہیں۔‘

سینیئر لائبریرین لاہور میوزیم بشیر احمد بھٹی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ لاہور میوزیم میں متحدہ پنجاب سے پہلی عالمی جنگ میں شرکت کرنے والے فوجیوں کا ریکارڈ تقسیم برصغیر سے قبل ہی موجود تھا، جسے ہاتھ سے لکھی ہوئی ڈائریوں اور جلدوں کی صورت میں محفوظ بنایا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا: ’یو کے تنظیم نے یہ ریکارڈ حاصل کرنے کے لیے ہم سے رابطہ کیا اور ہم نے انہیں فراہم کیا تھا مگر ہوسکتا ہے کہ انہوں نے کسی اور ذرائع سے بھی ریکارڈ حاصل کیا ہو۔‘

بشیر بھٹی کے بقول: ’یہ ریکارڈ ملٹری سائنس کے طالب علموں کے لیے انمول خزانہ ہے۔ اس میں مسلمان، سکھ، ہندو، مسیحی اور دیگر مذاہب کے ماننے والے لوگ شامل تھے اور ان سے متعلق جتنا بھی ریکارڈ ہماری لائبریری میں موجود ہے، اسے پنجاب کے دو حصوں میں تقسیم ہونے کے بعد بھی علیحدہ نہیں کیاگیا۔‘

بھارت اور پاکستان میں معاوضے کا تنازع

پہلی عالمی جنگ کے وقت متحدہ پنجاب چونکہ برصغیر کا حصہ تھا لیکن 1947 میں پاکستان اور بھارت دو ملک بن گئے، لہذا جنگ میں حصہ لینے والے پنجاب کے فوجیوں کی قومی شناخت بھی بھارتی اور پاکستانیوں میں تقسیم ہوگئی۔

اس طرح دونوں ملکوں نے اپنے اپنے علاقوں سے تعلق رکھنے والے فوجیوں کی خدمات کا معاوضہ بھی الگ طلب کرنے کا دعویٰ کیا۔بھارت ایک عرصے تک اقوام متحدہ سے یہ مطالبہ کرتا رہا ہے کہ اس جنگ میں لڑنے والے تمام سپاہیوں اور افسروں کا تعلق متحدہ پنجاب سے تھا، جو بھارت کا حصہ تھا اس لیے ان کا معاوضہ بھی اسے ہی ملنا چاہیے۔

لیکن جب پاکستان نے لاہور میوزیم کا ریکارڈ اقوام متحدہ کو پیش کیا تو پاکستان یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہا کہ جو اضلاع تقسیم کے بعد پاکستان کا حصہ ہیں یہاں سے تعلق رکھنے والے فوجیوں کا معاوضہ اور اعزازات پاکستان کو ملنے چاہیے تھے۔

اس معاملہ کا ابھی تک کوئی حل نہیں نکلا لیکن دونوں ملکوں میں یہ تنازعہ ابھی تک موجود ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ