چین کا ’ناممکن سمجھے جانے والے‘ میزائل کا تجربہ

ایسے میں کہ جب روس اور امریکہ اپنے طور پر اسی طرح کی ٹیکنالوجیز پر کام کر رہے ہیں، اس قسم کے کامیاب تجربے کا مطلب یہ ہو گا کہ چین ان دونوں ملکوں سے آگے ہے۔

تجربے میں چین نے پہلے وہ میزائل فائر کیا جسے وہ ہائپر سونک گلائیڈ وہیکل یا ایچ جی وی کہتا ہے۔ اسے راکٹ کے ذریعے خلا میں بھیجا جاتا ہے جس کے بعد وہ دوبارہ فضا میں داخل ہو کر آواز سے پانچ گنا زیادہ رفتار کے ساتھ ہدف کی طرف پرواز کرتا ہے(اے ایف پی/فائل)

ایک رپورٹ کے مطابق چین نے ایک ایسے ہتھیار کا تجربہ کیا ہے جو اس سے پہلے ناممکن خیال کیا جاتا تھا۔

رپورٹ میں دعوٰی کیا گیا ہے کہ آواز سے زیادہ تیز رفتار ہتھیاروں کے تجربے میں چین نے ایک اور خلائی جہاز سے میزائل داغا جو پہلے ہی آواز کی رفتار سے کم از کم پانچ گنا زیادہ تیزی سے سفر کر رہا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کی ٹیکنالوجی پہلے ناممکن خیال کی جاتی تھی اورامریکی ماہرین کو یقین نہیں ہے کہ درحقیقت چین نے یہ تجربہ کس طرح کیا۔

اگرچہ یہ تجربہ جولائی میں کیا گیا اوراس وقت کے قریب ہی رپورٹ کیا گیا،  اس پیشرفت کی نوعیت کا پہلی بار برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز نے انکشاف کیا۔ اخبار نے خبر شائع کی کہ ماہرین ڈیٹا کے ذریعے یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں چین نے یہ ٹیکنالوجی کیسے تیار کی اور اس میزائل کا اصل مقصد کیا ہے۔

تجربے میں چین نے پہلے وہ میزائل فائر کیا جسے وہ ہائپر سونک گلائیڈ وہیکل یا ایچ جی وی کہتا ہے۔ اسے راکٹ کے ذریعے خلا میں بھیجا جاتا ہے جس کے بعد وہ دوبارہ فضا میں داخل ہو کر آواز سے پانچ گنا زیادہ رفتار کے ساتھ ہدف کی طرف پرواز کرتا ہے۔ ایچ جی ویز اپنے طور پر ہتھیار کا کام کر سکتے ہیں کیونکہ ان کی رفتار بہت زیادہ ہوتی ہے لیکن یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ چین انہیں دوسرے میزائل لے جانے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نئی رپورٹ کے مطابق تب ایچ جی وی ایک اور میزائل کو داغنے کے قابل تھا جو جنوبی چین کے سمندر کے اوپر فضا میں اس سے الگ ہو گیا۔ فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ایسا دکھائی نہیں دیتا کہ یہ میزائل کسی ہدف کی طرف داغا گیا تھا بلکہ اس کی بجائے سمندر میں گر گیا۔ اس صورت حال نے امریکی ماہرین کی الجھن مزید بڑھا دی ہے۔

اس طرح یہ جاننا اور بھی مشکل ہو گیا ہے کہ میزائل کس مقصد کے لیے تیار کیا گیا۔ بعض ماہرین کی رائے ہے کہ مثال کے طور پر اسے میزائل سے تحفظ دینے والے نظام کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے جو جنگ میں استعمال کیے جانے کی صورت میں آواز سے زیادہ رفتار والے ہتھیار کو روکنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔

ایسے میں کہ جب روس اور امریکہ اپنے طور پر اسی طرح کی ٹیکنالوجیز پر کام کر رہے ہیں، اس قسم کے کامیاب تجربے کا مطلب یہ ہو گا کہ چین ان دونوں ملکوں سے آگے ہے۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا